کشمیر مسلمان اکثریت کا ہے اس لئے آزاد کیوں ہو؟
دعویٰ یہ ہے کہ اکثریت کی بات ماننا حق اور انصاف کی بات ہے۔ آج کے روشن دور میں جمہور عوام اور لوگوں کی غالب اکثریت کی بات کو نہ ماننا ظلم ہے، فساد کی جڑ ہے، بدامنی کا سبب ہے اور انجام کار دنیا کی تباہی کا راستہ ہے، اس لئے جمہور عوام کو ان کا حق دینا ہی ہر فرد و بشر کی آواز ہے! مشرقی تیمور کے لوگ اپنے جدی، پشتی اور تاریخی وطن سے اگر غالب اکثریت کی جمہوری آواز سے الگ اور آزاد ہونے کا فیصلہ کریں تو ان کا حق دینا ہی انصاف ہے، کیونکہ وہ عیسائی ہیں اور اپنے تاریخی، روایتی اور مسلم وطن سے الگ ہو سکتے ہیں، بلکہ الگ کرنے پر ان کے روایتی، تاریخی اور تسلیم شدہ وطن کو اس پر مجبور کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ وطن ایک مسلمان ملک ہے!
مگر کشمیر جوہزاروں سال سے کشمیریوں کا وطن مانا ہوا ہے، لیکن انہیں آزاد ہونے اور الگ ہونے کا حق نہ دیا جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور ہندو مت کے جنون میں مبتلا ایک غاصب حملہ آور ستر سال سے انہیں آزاد ہونے کا حق نہیں دے رہا، لیکن بھارت کو یہ حق دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ اقوام متحدہ بھی کشمیریوں کی آزادی کا راستہ متفقہ طور پر متعین کر چکی ہے،لیکن بھارت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ کوئی مسلمان ملک نہیں، بلکہ جنونی اور متعصب ہندو ملک ہے اور جنوبی ایشیا کے تمام غیر ہندو انسانوں کو زبردستی ہندو بنا کر ایک متحدہ قومیت میں جکڑنا چاہتا ہے اور غیر ہندو انسانوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے، اس لئے بھارت کو حق و انصاف دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا! یہی حال فلسطینیوں کا ہے اور اسی عذاب میں برما کے روہنگیا مبتلا ہیں، مگر یہاں سب جائز ہے، اس لئے کہ فلسطینی اور روہنگیا بھی مسلمان ہیں! تو گویا مسلمان ہونے کا نتیجہ عدل و انصاف سے محرومی اور ہر ظلم سہنے پر مجبوری ہے!
اس المناک اور ہولناک صورت حال کا اصل سبب کیا ہے؟ اس کا اصل سبب صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیڈر بول ہی نہیں سکتے، بلکہ انہیں لیڈر ہی اس لئے برداشت کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بولیں گے نہیں، بس چپ رہیں گے! اگر بولیں گے تو لیڈر نہیں رہ سکیں گے! بس مظالم کے خلاف بولنا ان کا جرم ہے! باقی سب کچھ کر سکتے ہیں، سیاہ کریں، سفید کریں، لوٹیں، ماریں، گند ڈالیں! اپنی قوم کے خلاف جو چاہیں کریں! بس ان کے حق میں نہ بولیں، ان پر مظالم کی بات نہ کریں، کھائیں کھلائیں، عیش کریں، عیش کرائیں، کسی کو ماریں، دفن کریں، کوئی کچھ نہیں کہے گا! لیکن ان کے حق میں بولے تو خیر نہیں!!
مَیں تو گزشتہ ستر اسی سال سے یہی دیکھ رہا ہوں، یہی سن رہا ہوں اور یہی لکھ رہا ہوں! گزشتہ ستر اسی سال سے کوئی لیڈر (سرکاری) مظلوم کشمیریوں کو ان کا قانونی حق دلانے کی بات نہیں کرتا، ہر عالمی فورم پر بات کرنے سے پہلے یہ ماننا پڑتا ہے کہ کشمیریوں کے حق کی بات نہیں ہوگی، کیونکہ اس سے بھارت کا نیا سامراجی برہمن ناراض ہوگا اور برہمن مسلمان تو نہیں ہے، اس لئے اسے کسی صورت میں ناراض نہیں کرنا! کشمیری روتے رہیں، چیختے رہیں، کوئی پروا نہیں! گزشتہ ستر اسی سال میں صرف ایک سفارت کار عبدالباسط ہے، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق میں بات کی ہے، مگر اس کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟۔۔۔ پہلی بار وزیراعظم میاں نوازشریف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق میں بات کرتے ہوئے سنا ہے، مگر اس کے بعد ہمارا کوئی لیڈر وزیراعظم کی تائید میں نہیں بولا،کیونکہ ہر ایک پاکستان کا لیڈر بننے کا اہل ثابت ہونا چاہتا ہے ،باہر والوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا! لیکن کل پہلی بار اپنے سپہ سالار کو دھڑلے سے یہ اعلان کرتے سنا ہے کہ کشمیر پاکستان کا ہے اور پاکستان کشمیریوں کا ہے! کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے! کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے اور واقعی ہے! ہندو ستر سال سے جھوٹ بولتا آ رہا ہے! کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور اس کا ثبوت خود کشمیری ہیں، ان کا جہاد آزادی ہے، ان کے شہدا اور ان کی عزتیں گواہ ہیں، اب ہمیں اپنے جرنیل کی بات کو آگے بڑھانا ہے، ہم نے اپنے جرنیل کی عزت رکھنا ہے، ہم نے پاکستان اور کشمیر کے لئے سب کچھ قربان کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کا حق تو پوری دنیا مان چکی ہے۔ اقوام متحدہ حق دلانے کی ذمہ داری لے چکی ہے۔ خود بھارت اس حق کو مان چکا ہے۔ کشمیری تو پاکستان سے مل چکے تھے۔ غاصب نہرو نے فوجی قبضہ کیا اور پھر خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا اور کشمیریوں کو حق دینے کا ساری اقوام سے وعدہ کرکے آ گیا! ہم نے (ہر ایک پاکستانی نے اور لیڈروں نے سب سے پہلے) دنیا میں ہر جگہ یہ وعدہ پورا کروانا اور حق دلاناہے۔ ہم نے کشمیریوں کی آزادی کے لئے سب کچھ کرنا ہے۔ بھارت سے منوانا اور وعدہ پورا کرانا ہے، ورنہ وہ تو دنیا سے یہی کہے جا رہا ہے اور کہے جائے گا کہ کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ مسلمان اکثریت کا ہے! دنیا سے منوانا ہے کہ مسلمان بھی آزاد زندگی کا حق رکھتا ہے، اگر مسلمانوں کا یہ حق ہر جگہ ٹھکرایا گیا تو پھر مسلمان کو بھی ٹھوکر مارنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حق تلفی ہوئی تو امن کیسے آئے گا، تم انصاف کردو، امن خود بخود قائم ہو جائے گا۔