شمالی لاہور کے رہائشی جہنم میں!
آج کل صوبائی دارالحکومت کے بیشتر علاقے ترقیاتی کاموں کی زد میں ہیں۔ کئی مقامات پر گہرے گڑھے کھود کر راستے بند کئے گئے ہیں تو کئی جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔لاکھوں شہریوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔کئی کئی کلومیٹر زائد مسافت طے کرکے منزل مقصود پر تاخیر سے پہنچنا معمول بنتا جا رہا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ متبادل راستوں کا بھی درست انداز میں تعین نہیں کیا گیا۔ زندہ دلانِ لاہور کی اکثریت جابجا کھدائی کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ ٹریفک کی بندش ہر روز کا معمول ہے۔ شاید ہی شہر کی کوئی سڑک ایسی ہو جہاں ٹریفک کئی کئی گھنٹے جام نہ رہتی ہو۔ رمضان المبارک میں بالخصوص افطاری کے وقت روزہ دار خاصی دیر تک ٹریفک کے اژدہام میں پھنسے رہتے ہیں۔ اکثر کا تو روزہ بھی راستے میں ہی کھلتا ہے۔ ٹریفک وارڈنز اور اہلکاروں کی پہلے جیسی فرض شناسی اور چابکدستی نہیں رہی، وہ بھی سہل پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں ٹریفک پھنسی ہو، اسے نکالنے میں زیادہ جانفشانی کا ثبوت نہیں دیتے اور لاتعلق ہو کر سائڈ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
شمالی لاہور کے باسی اس اعتبار سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ شہر کی غالب اکثریتی آبادی اسی علاقے کی رہائشی ہے، یہاں کے رہنے والوں کا تو آج کل کوئی حال ہی نہیں۔ گڑھی شاہو کا پل جب سے بننا شروع ہوا ہے، شمالی لاہور کے رہنے والے ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ جی ٹی روڈ پر اورنج لائن ٹرین ، گڑھی شاہو پل اور نہر پر انڈر پاسز کے لئے کی جانے والی کشادگی کسی درد سر سے کم نہیں۔ کار یا موٹر سائیکل سواروں کی مشکلات تو ایک طرف، شمالی لاہور کے اکثر علاقوں میں پیدل چلنا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ یہاں کے باسیوں کی اکثریت نزلہ، زکام، کھانسی ، دمہ اور فلو جیسے امراض کا شکار ہے۔ کاروبار ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اکثر دکاندار اپنی دکانیں بڑھانے پر مجبور ہیں۔کوئی بھی راستہ ایسا نہیں، جسے استعمال کرکے شہر تک پہنچا جا سکے۔ شمالی لاہور کے رہنے والوں کا شہر کے دوسرے علاقوں سے رابطہ باقاعدہ کٹ چکا ہے۔ مغل پورہ کی اندرونی سڑکوں پر جو متبادل راستہ دیا گیا ہے، وہ بھی مسدود ہے۔ سڑکوں پر بازار سجے ہیں۔ ریڑھی بانوں نے گزرگاہ بھی ختم کر دی ہے۔یہاں بھی گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں جو لوگ سحری افطاری کی خریداری کے لئے یہاں آتے ہیں، انہیں بھی باقاعدہ ایک عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔گرین بیلٹ پر بھی تجارتی منڈیاں بن چکی ہیں۔ بعض تجاوزات تو مستقل حیثیت کی حامل ہیں، جن کے حوالے سے ریلوے کے اعلیٰ حکام سمیت متعلقہ اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
شمالی لاہور کی کئی سڑکیں تو طویل عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار چلی آ رہی ہیں۔ ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔دو موریہ پل سے شمالی لاہورمیں داخل ہونے والے تمام راستے گڑھوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آمد و رفت کے لئے شاید ایک بھی راستہ صحیح سالم نہیں، جس پر سے آپ بآسانی گزر سکتے ہوں۔بارش کے دنوں میں پانی کھڑے رہنا تو تسلیم، لیکن یہاں تو سیوریج کا پانی بھی کئی کئی دن تک خشک نہیں ہوتا یا کیا نہیں جاتا۔ تانگہ ریڑھا جیسی سست رفتار ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے یہاں پہلے ہی مسائل بہت تھے، رہی سہی کسر جاری ترقیاتی کاموں نے پوری کر دی ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ شمالی لاہور کے اہلیان جہنم کے باسی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مقامی ارکان اسمبلی اور منتخب بلدیاتی نمائندے بھی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، ایک صوبائی وزیر بھی اسی علاقے کے رہائشی ہیں لیکن شاید وہ اپنے گھر سے متصل سڑک بھی صحیح نہیں کروا پا رہے۔
سڑکوں کی بندش پر متبادل کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے آج تک اس امر کا تعین ہی نہیں کیا گیا۔ متبادل سڑک پر ٹریفک پولیس کا کوئی اہلکار بھی نہیں دکھائی دیتا جو آنے جانے والوں کی رہنمائی کر سکے۔سائن بورڈ لگانا تو کسی کے فرائض میں شامل ہی نہیں۔ گڑھی شاہو پل کے نیچے باقاعدہ دکانیں قائم کرکے نہ جانے کیا پیغام دیا گیا ہے۔یہ امر سیکیورٹی کے اعتبار سے بھی نہایت خطرناک ہے اور ٹریفک میں تو رکاوٹ بن ہی رہا ہے۔ رہی بات اہل شمالی لاہور کی تو وہ بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا شاید ان پر اتنی مشکلات پڑی ہیں کہ عادی ہو گئے ہیں، احتجاج نام کی کوئی شے کسی بھی ظلم یا زیادتی کے خلاف دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری منتخب نمائندوں اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام سے درخواست کہ وہ شمالی لاہور کا صحیح معنوں میں بغیر پروٹوکول دورہ کرکے حالات کا خود مشاہدہ کریں اور تمام مشکلات کے حل کے لئے ٹھوس پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ شمالی لاہور کے باشندوں کو شہر کے دوسرے باسیوں جیسے حقوق میسر آ سکیں