رمضان المبارک اور انسانی صحت

رمضان المبارک اور انسانی صحت
رمضان المبارک اور انسانی صحت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اُس غفور الرحیم ذات نے زندگی میں ایک بار پھر رمضان المبارک کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ یہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ جو اپنی آمد کی دستک دے رہا ہے،اپنے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی شفا کا خوش کن پیغام لے کر آتا ہے۔

وہ رحمتوں کے شب و روز جن میں نیکیاں پروان چڑھتی ہیں اور بہاؤ لاتی ہیں،جن میں نوافل فرائض کے برابر اور فرائض ستر گنا زیادہ ثواب کا ذریعہ ہیں، جس بابرکت مہینے میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،جس میں شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں،جب اس بات کی ضمانت مل جاتی ہے کہ اگر احتساب اور ایمان کے ساتھ روز رکھے گئے تو سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

یہ مبارک مہینہ انسانی صحت کے لئے نعمت خداوندی ہے، سال بھر غذائی بے اعتدالی سے جو امراض جنم لیتے ہیں، اگر ایک مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانے پینے کا جو ’’ شیڈول‘‘ طے ہوتا ہے، اگر اعتدال کے ساتھ اختیار کر لیا جائے تو ایسے امراض جو علاج اور دواؤں سے ٹھیک نہیں ہوتے، وہ اللہ کے فضل اور روزے کی برکت سے بغیر دوائی کے جان چھوڑ جاتے ہیں۔
چند اہم امراض جو روزہ کی برکت سے ختم ہو جاتے ہیں:
موٹاپا: ہمارے ہاں کھانے کا یہ اصول کہ خوردن برائے زیستن(اتنا کھاؤ جس سے زندہ رہ سکو) کی بجائے زیستن برائے خوردن(زندگی کھانے پینے کے لئے ہے) مقصد حیات بن چکا ہے۔خوش خوراکی ایک اچھی عادت ہے، لیکن اس سے مراد ہر گز بسیار خوری نہیں، بلا ضرورت کھانا، بے وقت کھانا، خصوصاً شادی اور تقاریب کے موقع پر اس طرح کھانا کہ شاید زندگی میں پہلی بار کھانا ملا ہے،دوبارہ نہ ملے، کھانے میں مرغن اور مصالہ دار غذاؤں کا کثرت سے استعمال، فاسٹ فوڈ کے نام پر برگر، پیزا، ڈبل روٹی، نان اور بریانی کا کثرت سے استعمال،کھانے کے بعد کسی قسم کی ورزش نہ کرنا، پیدل چلنے سے گریز، رات دیر سے کھانا کھا کر سو جانا، خصوصاً عورتوں میں مرغن کھانوں کے استعمال کے بعد کسی بھی قسم کی ورزش کے مواقع کا میسر نہ ہونا، جسم میں چربیلی اجزا کے جنم لینے سے موٹاپا جیسے خطرناک مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

موٹاپے کی وجہ سے کئی دیگر عوارض، بلڈ پریشر، شوگر، بانچھ پن، اختلاجِ شب جنم لیتے ہیں، روزے کی برکت سے موٹاپے کا فطری علاج اور وزن میں واضح کمی بغیر کسی دوا کے فطری طور پر ہوتی ہے۔

جب انسان کے معدے کو خوراک نہ ملے، بھوک اور پیاس تنگ کریں تو بھی تحقیق کے مطابق غیر طبعی اجزا از خود تحلیل ہو کر خوراک کا کام دیتے ہیں۔اگر انسان خشک اور سادہ روٹی پر اکتفا کرے تو موٹاپے کا علاج رمضان المبارک میں بڑی آسانی سے ممکن ہے۔
کولیسٹرول کا خاتمہ: آج کے ترقی یافتہ دور میں خون کے اندر شحمی اجزا جو خون کی گردش کو رواں رکھنے میں معاون اور ضروری ہیں، اُن کی مقدار توازن سے بڑھ جاتی ہے۔ جدید طبی اصول کے مطابق ایک صحت مند آدمی میں کولیسٹرول کی مقدار کم سے کم 150اور زیادہ سے زیادہ 200 کے درمیان ہونی چاہئے، مگر دیکھا گیا ہے کہ کولیسٹرول کی مقدار بعض لوگوں میں 250 سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اُنہیں ادراک نہیں ہوتا کہ کتنے خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔

کولیسٹرول کے بڑھنے کی عام علامت یہ ہے کہ انسان جب پیدل چلتا ہے، خصوصاً جب سیڑھیاں چڑھتا ہے تو اس کا سانس پھول جاتا ہے، گردن کے قرب و جوار میں کندھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، دِل کے مقام پر بوجھ اور درد کا احساس ہوتا ہے، اگر انسان چلتے ہوئے یہ کیفیت محسوس کرے اور رُک جائے، سیڑھیوں میں ٹھہر جائے تو یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔

جب بھی ایسے مریض کا خون چیک کرایا جاتا ہے تو تصدیق ہو جاتی ہے کہ اُس کا کولیسٹرول بڑھ چکا ہے۔ امراضِ قلب کے ماہرین کولیسٹرول کے بڑھنے کو ہارٹ اٹیک کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ایسے مریض جو مسلسل کولیسٹرول کو کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے لئے ادویہ کا استعمال کرتے ہیں، رمضان المبارک کی برکت سے تھوڑی سی محنت کر کے اس مرض سے مکمل نجات پا سکتے ہیں۔

بھوک اور پیاس کی وجہ سے زائد از ضرورت کولیسٹرول (شحمی اجزا) جو مرض کا باعث بنتے ہیں، تحلیل ہو جاتے ہیں، بدن میں حرارت اور قوت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور یہ خطرناک مرض اللہ کی رحمت سے ختم ہو جاتا ہے۔ اِن تمام ایام میں اگر یہ چٹنی بطور دوا استعمال کی جائے تو زیادہ جلد نتیجہ سامنے آتا ہے۔
ہوالشافی: تازہ ادرک اڑھائی تولہ،تھوم تازہ دس بارہ تُریاں، زرشک شیریں ایک چھٹانک، تازہ پودینہ، تازہ دھنیا، انار دانہ سب کو رگڑ کر چٹنی تیار کر لیں، خوش ذائقہ غذا کولیسٹرول کے خاتمے کی موثر دوا ہے!
معدے کی تیزابیت اور جلن: اکثر مریض یہ شکایت کرتے ہیں کہ کھانے کے بعد اُن کے معدے میں گرانی ہو جاتی ہے۔ بعدازاں غذائی نالی میں حلق تک جلن، کٹھی اور جلن پیدا کرنے والی ڈکاریں تنگ کرتی ہیں۔

اگر اس مرض پر توجہ نہ دی جائے تو معدے کا السر ہو جاتا ہے۔معدے کی جلن اور تیزابیت درحقیقت موجودہ دور کی غذائی بے اعتدالی نئی نسل میں سہل انگاری، آرام طلبی،جسمانی مشقت کی کمی اور غذاؤں میں ثقیل، مرغن، دیر ہضم غذاؤں کا کثرت سے استعمال اس کا بنیادی سبب بنتے ہیں۔ رمضان المبارک کی برکت سے کھانے پینے کے اوقات اور خورو نوش میں اعتدال پیدا ہوتا ہے، معدے کی غیر طبعی رطوبات میں کمی اور اعتدال پیدا ہوتا ہے،جس کی وجہ سے معدے کی جلن اور تیزابیت کا بغیر علاج اور دوا کے استعمال کے فطری علاج ہوتا ہے۔

برسوں کا علاج اور ٹیسٹ، ادویہ کا استعمال ایک طرف، روزے کی برکت سے نجات دوسری طرف! روزہ علاج پر بھاری قرار دیا جا سکتا ہے! تیزابیت کی یہی کیفیت تبخیر معدہ کی صورت اختیار کرتی ہے، مریض شکایت کرتا ہے کہ کھانے کے بعد اُس کے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے، انتہائی صورت میں بے جا ڈکار، اپھارہ اور اکثر اوقات اختلاجِ قلب، سر کا بھاری ہونا، بعض اوقات بلڈ پریشر کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے، جوں ہی کسی دوا یا قہوے کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے، روزہ ایسے امراض کا فطری علاج ثابت ہوتا ہے۔
بلڈ پریشر:ہمارے ہاں اکثر بلڈ پریشر کے مریض حقیقت میں بلڈ پریشر کے مریض نہیں ہوتے،بلکہ اکثر اوقات مرغن اور مصالحہ دار غذاؤں، پیٹ میں ریاح پیدا کرنے والی غذاؤں، پائے،بھنڈی توری، گوبھی، ماش کی دال، انڈوں، مچھلی کے بے جا استعمال، تیز کافی، چائے یا قہوے کا استعمال وقتی طور پر خون کی گردش کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے، معدے کا اپھارہ یا تبخیر بھی سر کی گرانی اور بلڈ پریشر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ معالج کا یہ کام کہ مستقل فشار اللدم(بلڈ پریشر) اور اس عارضی کیفیت میں فرق کرے! جب ایک مرتبہ بے احتیاطی سے بلڈ پریشر کی دوا شروع کر دی جاتی ہے تو لوگ عادتاً بغیر ضرورت کے بعد بھی دوا استعمال کرتے جاتے ہیں،جن سے کئی منفی امراض جنم لیتے ہیں،جب روزے کی برکت سے کھانے پینے میں اعتدال، مناسب وقفہ اور بے جا غذائی اشیاء استعمال کرنے سے معدے پر منفی اثر کم ہوتا ہے تو بلڈ پریشر کی کیفیت تو ختم ہو جاتی ہے، ویسے بھی بلڈ پریشر کو اعتدال پر لانے اور ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
یورپ میں آج کل ایسے امراض جن کا کسی دوا سے علاج ممکن نہیں، اُن کے علاج کےFasting Home بنائے گئے ہیں، جہاں ایسے مریضوں کو جنہیں لاعلاج قرار دیا جاتا ہے، داخل کیا جاتا ہے، اُن کے کھانے پینے پر طبی پابندی لگا دی جاتی ہے،مریضوں کو طے شدہ اوقات میں ٹھوس غذا کی بجائے پھلوں، جوسز، دودھ، کبھی کبھار دلیہ دیا جاتا ہے، کچھ ہی دِنوں کے بعد بھوک اور پیاس کا یہ ’’علاج‘‘ اُن کی ردی رطوبات تحلیل کر دیتا ہے اور مریض صحت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

اُمت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ سال کے بعد ایک ماہ کی یہ ٹریننگ اُن کے روحانی اور جسمانی علاج کا ایک فطری طریقہ قیامت تک کے انسانوں کو عطا کر دیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں روزے شروع ہوتے ہی روزہ خور حضرات ’’موسمی امراض‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں اور جوں ہی رمضان ختم ہوتا ہے،یہ امراض بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

وہ بدنصیب یہ بھول جاتے ہیں کہ روزہ نماز کی طرح فرض ہے، بیماری کی حالت میں اگر کوئی روزہ چھوٹ جائے تو ایام الآخر میں پورا کرنے کا حکم ہے۔ شوگر اور درد گردہ کے مریض پانی کی کمی یا خوراک کی کمی سے بعض اوقات روزہ ترک کر دیتے ہیں۔

درحقیقت روزے کا تعلق سحری و افطاری کے علاوہ انسانی قوتِ ارادی سے ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے کو ترک یا موخر نہ کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں،وہ شوگر اور گردے کے امراض کے ساتھ روزے کے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ساحلِ مراد تک پہنچ جاتے ہیں،بلکہ روزے کی برکت سے وہ صحت کے انمول تحفہ کو اللہ کے احسان کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے لئے برحق ہے! کاش! ہم انسانی صحت کے لئے روزے کی افادیت کو کیش کرا سکیں!

مزید :

رائے -کالم -