وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 69
ساحل اور عارفین دیوانہ وار ان کی طرف لپکے کہ سانپوںکو ان کے جسموں سے نوچ نوچ کر پھینک دیں، چاہے ان کی جان ہی چلی جائے ۔ابھی وہ عمارہ اور اسامہ کے قریب بھی نہ گئے تھے کہ خیام کی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔
”ان سانپوں کو چھونا مت ورنہ اسامہ اور عمارہ کا عمل ٹوٹ جائے گا اور یہ سانپ انہیں ڈس لیں گے۔اسامہ اور عمارہ کا زندہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ابھی تک کامیابی سے عمل پڑھ رہے ہیں۔“وہ دونوں جہاں کھڑے تھے وہاں رک گئے ۔انہوں نے خیام کی طرف دیکھا جو ان کے سامنے کھڑا تھا۔مگر چند سکینڈ میں ہی ساحل اور عارفین اپنی جگہ سے غائب ہوگئے۔ایک پل ضائع کیے بغیر خیام بھی غائب ہوگیا۔ساحل اور عارفین باہر اسی جگہ پہنچ گئے جہاں زرغام ، حوریہ ، وشاءاور فوا د کھڑے تھے۔ خیام بھی وہاں ظاہر ہوگیا۔
زرغام نے غصے سے بھری نگاہوں سے خیام کی طرف دیکھا”تم میری طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔“
یہ کہہ کر زرغام نے ساحل اور عارفین کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف جھٹکا۔عارفین اور ساحل روئی کے پتلوں کی طرح ہوا میں معلق ہوگئے پھر زرغام نے مشرق کی طرف اپنے ہاتھ کو دھکیلا۔
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 68
خیام ان کی مدد کرنے کے لیے آسان کی طرف اڑا تو وشاءنے تیزی سے کچھ پڑھا جس سے ہوا میں خیام کے سامنے دو فٹ چوڑا اور تین فٹ لمبا آئینہ آگیا۔ وشاءنے اس کے ساتھ وہی طریقہ استعمال کیا جو اس نے حوریہ کے ساتھ کیا تھا۔
خیام کا عکس ایک ڈاٹ کی شکل میں آئینے پر ابھرا۔ وشاءنے اپنے ہاتھوں کی حرکت سے آئینے کو اس طرح ترچھا کیا کہ سورج کی شعاع اس ڈاٹ سے ملی جس کے ساتھ خیام کی چیخیں فضا میں گونجیں اور پھر وہ غائب ہوگیا ۔اس عمل سے وہ کچھ دیر کے لیے خود کو ظاہر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔
ساحل اور عارفین مشرق کی سمت اس طرح اڑ رہے تھے جیسے کوئی ہوائی طاقت انہیں اڑا رہی ہو۔ وہ دونوں اس آبشار کے قریب تھے جو نیچے چھوٹے چھوٹے چشمے بناتی ہوئی نہر میں گر رہی تھی۔زرغام نے اپنے ہاتھ کو زور سے جھٹکا تو وہ دونوں برفیلے پانی کی اس نہر میں جا گرے۔ انہیں تیراکی بھی نہیں آتی تھی۔برفیلے پانی نے ان کی رگوں میں بہتا لہو جیسے منجمد کر دیا۔
وہ چیختے چلاتے بار بار اوپر آتے”بچاﺅ....بچاﺅ....“ مگر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
اب وہ اپنی موت کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ان کی جلد سرد اور سفید ہو گئی تھی۔ رفتہ رفتہ ان کی چیخیں بھی دبنے لگی تھیں۔ وہ بے چینی سے ہاتھ پاﺅں چلاتے ہوئے اردگرد دیکھ رہے تھے کہ شاید خیام انہیں بچانے کے لیے آئے مگر زندگی کی ڈور کے ساتھ ساتھ امید بھی چھوٹتی جا رہی تھی۔
عارفین کی سانسیں ڈو ب رہی تھیں....ساحل کی اپنی حالت ٹھیک نہیں تھی پھر بھی وہ عارفین کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ان کے دانت بج رہے تھے جسم پر کپکپی طاری تھی ساحل بمشکل چلایا”اسامہ....عمارہ“مگر بے سود کیونکہ ان کی آواز تہہ خانے تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
اسامہ اور عمارہ کا عمل مکمل ہوگیا جس کے ساتھ ہی ان کے جسموں پر لپٹے سانپ بھی غائب ہوگئے۔چاروں قبروں پر جلے ہوئے چراغ بجھ گئے۔ اسامہ اور عمارہ نے خوشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ عمارہ خوشی سے چلائی۔ ”اسامہ! ہمارا عمل کامیاب ہوگیا ہے شیطان ہمزاد ختم ہوگئے ہیں بغیر ہوا کے چراغوں کا بجھنا اسی بات کی علامت ہے۔“
ادھرعارفین کے ساتھ ساتھ اب ساحل کی سانسیں ڈوبنے لگی تھیں....اب وہ خود کو ڈوبنے سے بچا نہیںسکتے تھے۔ ان کے بازو اور ٹانگیں برفیلے پانی سے بے جان ہو رہی تھیں۔
اچانک درخت کا موٹا تنا ساحل کو خود کے قریب گرتا ہوا محسوس ہوا۔ زندگی کی امید نے ان کے بے جان جسموں میں جان بھر دی۔ ساحل نے ہاتھ بڑھا کر اس تنے کو پکڑ لیا۔ وہ دونوں اس تنے کی مدد سے جھیل سے باہر آگئے۔
ان کی حالت بہت خراب تھی وہ بے سود زمین پر گر گئے اور کانپنے لگے
”تنے کا اس طرح ہم پر جھک جانا بالکل جادوئی عمل تھا مگر یہ کس نے کیا“ ابھی یہ ساحل سوچ ہی رہا تھاکہ اسے اسی درخت کے قریب ایک روشنی سی دکھائی دی جو رفتہ رفتہ اس کے قریب آنے لگی اور پھر وشاءکا روپ دھار گئی۔
پہلے تو ساحل اور عارفین خوفزدہ ہوگئے کیونکہ ان کے جسموں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔
مگر اس بار وشاءکا روپ بہت مختلف تھا۔ وہ سفید لباس میں تھی اس کا سفید دوپٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا اس کے چہرے پر وہی معصومیت وہی خوبصورتی تھی جو زندگی سے بھرپور وشاءمیں تھی۔
ساحل کا دل اسی طرح دھڑکا جیسے اس کی اپنی وشاءاس کے سامنے ہو مگر اس نے اپنے سر کو جھٹکا دیا کہ وہ ایک بار پھر ہمزاد کے دھوکے میں نہ آجائے۔
وشاءکا ہوائی نورانی جسم اس کے بالکل قریب آگیا....وہ اس کے پاس بیٹھ گئی اس کی آنکھیں احساس وفا سے جھلملا رہی تھیں۔لبوں پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔
ساحل اس سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا نہ جانے دل کیوں کہہ رہا تھا کہ اگر یہ فریب ہے تو اس فریب میں مبتلا ہو جاﺅں....
وشاءنے دھیرے سے کہا”تمہیں نئی زندگی مبارک ہو....تم سب نے مل کر موت کو شکست دے دی ہے۔“
ساحل کے دل نے کہا کہ زندگی کی نوید سنانے والی وشاءہی ہو سکتی ہے۔ا س کی آنکھیں بھگ گئیں۔”وشائ....تم میری وشاءہو....“
وشاءمسکرائی مگر اس کی آنکھوں میں ساحل کے لیے گلہ تھا”بس تم سے ایک بات کہنے آئی ہوں۔ اگرکوئی آپ کی زندگی میں سچی محبت لے کر آئے تواسے کبھی نہ ٹھکراﺅ۔....محبت پر پیسہ اور آسائشوں کو ترجیح مت دو....اگر آپ کسی محبت کے بدلے میں محبت دیں گے تو رب کو آپ کو نعمتوں سے سرشار کر دے گا۔کوئی اپنے رب سے امید تو باندھ کے دیکھے وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔“
یہ کہہ کر وشاءکھڑی ہوگئی اور ہوا میں معلق ہو کے ساحل سے پیچھے ہٹنے لگی۔
”وشاءرکو....میری بات تو سنو....“ ساحل ہوا میں ہاتھ اکڑائے اسے پکارتا رہا۔وشاءپیچھے ہٹتی ہوئی ایک بار پھر روشنی میں تبدیل ہوگئی اور پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد ساحل اور عارفین کو پانچ روشنی کی شعاعیں آسمان کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دیں۔