کورونا تیرے جاں نثار، بے شمار بے شمار
کل ملتان کینٹ کے علاقے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ موٹرسائیکلوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی دیوار کی طرف منہ کرکے بیسیوں افراد کھڑے ہیں، جنہیں ٹریفک پولیس نے ان موٹرسائیکلوں سے اتار کر یہ سزا دی ہے۔ مَیں نے ایک وارڈن سے ماجرا پوچھا تو اس نے کہا یہ سب وہ ہیں، جنہوں نے ماسک نہیں پہنچ رکھا، جبکہ حکومت نے سختی سے منع کیا ہے کہ اب کوئی موٹرسائیکل سوار بغیر ماسک کے نظر نہ آئے۔ مجھے یہ منظر نجانے کیوں اچھا لگا۔ جیسے میرا دل چاہتا تھا کہ ایسا ہو، کسی کو تو خیال آیا کہ اس ریوڑ کو جسے عوام کہتے ہیں، یہ سمجھانا ہے کہ اے غافلو کورونا کو مذاق نہ سمجھو، یہ موت بن کر ہمارے اردگرد بھٹک رہا ہے، کسی کو بھی غافل دیکھتا ہے، اسے دبوچ لیتا ہے، اب انتظامیہ کو ہوش آئی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے۔ لاہور میں ہال روڈ کی مارکیٹیں اور دکانیں بند کرا رہی ہے، کیونکہ دکاندار اور گاہک ایس او پیز کی پابندی نہیں کر رہے۔ ان میں سے کون ہے جسے اپنی زندگی کی فکر ہو، اسے تو بس پیسہ کمانے یا پیسہ لگانے کی فکر ہے، یہ لوگ تو ایسے کورونا پر فدا ہو رہے ہیں، جیسے بڑی مشکل سے کوئی محبوب ان کے ہتھے چڑھا ہو، انہیں صرف ڈنڈا ہی یہ یاد کرا سکتا ہے کہ مختاریا گل ودھ گئی اے، ہر طرف موت کا راج قائم ہو رہا ہے۔
جب عید کی شاپنگ جنون کی حد تک کی جا رہی تھی تو ان دنوں بھی سیانے یہی کہتے تھے، آخر تنقید کے کپڑے پہن کر جانا کہاں ہے؟ لیکن شائد سبھی نے سپریم کورٹ کی یہ بات پلے باندھ لی تھی کہ بعض لوگ تو عید کا جوڑا ہی ہر سال خریدتے ہیں۔ تاریخ یاد کرے گی کہ ایک ایسا ملک بھی تھا جہاں کورونا کی وبا بالکل قابو میں تھی، لیکن پھر اس کو پھیلانے میں سبھی نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ سب ایک دوسرے پر بازی لے جاتے رہے، کیا عوام، کیا حکمران اور کیا عدالتیں، سبھی کو ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کے جنون میں مبتلا دیکھا گیا۔ یہ جان نثارانِ کورونا آج پچھتا رہے ہیں۔ اپنے ہی فیصلوں کو واپس لے رہے ہیں۔ خود ہی یہ تنبیہ جاری کر رہے ہیں کہ احتیاط نہ کی گئی تو پھر سب کچھ بند کر دیں گے۔ اب اس احتیاط کا کیا فائدہ، کورونا تو گھر گھر پھیل گیا ہے۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی۔ گھروں میں اتنی گنجائش نہیں کہ کورونا مریض کو علیحدہ رکھا جا سکے، عجیب کسمپرسی کا عالم نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے، لیکن اس عالم میں بھی عوام ہیں کہ سدھرنے کو تیار نہیں، بازاروں اور گلیوں میں ایسے سینہ چوڑا کرکے دندناتے پھرتے ہیں کہ جیسے کورونا کو چیلنج دینے نکلے ہوں۔ دیکھ بھی رہے ہیں کہ روزانہ چار پانچ ہزار کیسز سامنے آ رہے ہیں، 80یا نوے اموات تو معمول کی بات بن گئی ہے، لیکن احتیاط کرنے کو تیار نہیں، کیا اسے خودکشی کا جنون کہا جا سکتا ہے، کیا ان لوگوں کو احساس نہیں کہ وہ خود اور اپنے ساتھ دوسروں اور گھر والوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انہیں پولیس اب جگہ جگہ مرغا بنائے گی تو انسانی توہین کے الزامات لگیں گے، مگر یہ خود جس طرح زندگی اور انسانیت کی توہین کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، اس کا علاج کون کرے گا۔
شروع کے 45دنوں میں 4500کیسز سامنے آئے تھے،اب ایک دن میں اتنے کورونا کیسز کی تشخیص ہو رہی ہے۔ کیا اب بھی غلطی کی کوئی گنجائش موجود ہے، کیا ہم سب اسی کوشش میں ہیں کہ خدانخواستہ یہ تعداد 45ہزار روزانہ ہو جائے، بھوک سے مرنے والے بیانیے کو پھیلا کر ہم نے کورونا پھیلنے کا جو سودا کیا اس کی بھیانک تصویر سامنے آنے لگی ہے۔ تعداد 90ہزار تک پہنچ گئی ہے اور کیلکولیٹر بڑی تیزی سے اپنا ہندسہ بدل رہا ہے۔ میڈیا کہہ کہہ کے تھک چکا ہے کہ احتیاط ہی کورونا سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے، مگر کوئی احتیاط کرنے کو تیار نہیں، اب بھی ایسے کورچشم آپ کو آسانی سے مل جاتے ہیں جو پوچھتے ہیں آپ کا کوئی عزیز کوئی جاننے والا کورونا سے مرا، کسی کو آپ نے مرتے دیکھا، یہ سب ڈرامہ ہے جو عالمی ایجنڈے کے تحت اپنایا گیا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہم اپنے پاکستانیوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور پھر بھی یہ پوچھتے ہیں کیا آپ کا کوئی اپنا عزیز کورونا سے مرا ہے۔ یہ آگ جو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس پر پانی ڈالنے کی بجائے اگر ہمارے عوام اپنی بے احتیاطی اور لاپرواہی سے تیل چھڑک رہے ہیں تو یہ آگ کیسے بجھے گی،کہاں رُکے گی؟۔ چلیں جی مانا کہ عوام کو گھروں میں محبوس نہیں رکھا جا سکتا، یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ روزگار بھی چلنا چاہیے، یہ بھی تسلیم ہے کہ لوگوں نے ضروریات زندگی کی خریداری بھی کرنی ہے، لیکن کیا یہ بھی ضروری ہے کہ انہوں نے کوئی احتیاط بھی نہیں کرنی، ماسک بھی نہیں پہننا، فاصلہ بھی نہیں رکھنا، ہاتھ بھی نہیں دھونے، کندھے سے کندھا ملانا بھی نہیں چھوڑنا۔ یہ تو کورونا پر خودکش حملہ کرنے والی بات ہے، جس سے پورا معاشرہ تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کچھ دنوں کے لئے کورونا پر بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ آج کل یوگنڈا کے صدر کی تقریر سوشل میڈیاپر بہت چل رہی ہے۔ کاش وزیراعظم عمران خان اس تقریر کا بغور مطالعہ کریں۔ اس تقریر میں یوگنڈا کے صدر نے اپنے عوام سے کہا ہے کہ وہ کورونا وبا کے دنوں میں اپنے حقوق کو بھول جائیں، کیونکہ حقوق زندگی سے بڑھ کر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب جنگ ہوتی ہے تو عوام خود بخود گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں، کھانے پینے کو کچھ نہ ملے تب بھی صبر کرتے ہیں۔ کورونا نے بھی دنیا کو حالتِ جنگ میں مبتلا کر دیا ہے۔ جنگ کے دنوں میں روزگار بھی چھن جاتا ہے اور آزادی بھی سلب ہو جاتی ہے، کیونکہ مقصد دشمن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا دشمن کورونا ہے، اس سے لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھیں، احتیاط کریں۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اس کے الٹ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان یہی کہتے رہے کہ کورونا کی وجہ سے ملک بند کرکے لوگوں کو بھوکا نہیں مار سکتے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ جو لوگ ایس او پیز کی پابندی نہیں کر رہے، پولیس ان پر سختی نہ کرے، کیونکہ انہیں یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ جب ملک کا چیف ایگزیکٹو یہ بیانیہ دے تو کیا عوام کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ احتیاط کریں۔ وہ تو دندناتے ہوئے میدان میں آئیں گے کہ وزیراعظم نے انہیں کھلی چھٹی دے دی ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے آج ہم ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ کورونا کے جاں نثاروں نے ہمیں اس حال تک پہنجایا ہے، ابھی نجانے اس غفلت کے نتیجے میں ہمیں اور کیا کچھ دیکھنا ہے۔