’مائی ڈائری‘مائی چوائس‘
فیض احمد فیض نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ زندگی میں جب کبھی کوئی فیصلہ کُن مرحلہ آئے تو پہلے فیصلہ کر لو اور پھر سوچو کہ اِس میں فائدہ یا نقصان کتنا ہے۔ اگر ابتدا ہی میں فائدے اور نقصان کی بحث میں اُلجھ گئے تو کبھی فیصلہ نہیں کر پاؤ گے۔ ہم نے بھی اب سے پونے تین ماہ پہلے سیلف آئسولیشن میں جا نے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کر کے سوچا کہ اِس طویل قید ِ تنہائی میں اکتوبر کے اواخر تک (اگر زندہ رہے تو) بوریت کو پاس نہیں پھٹکنے دیں گے۔ رہا کیوں اور کیسے کا سوال تو یہاں رہنمائی براہِ راست برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل سے حاصل کی۔ دراصل پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے خلاف تقریریں کرنے پر جب فیض کی طرح رسل پہ وطن دشمنی کا الزام لگا تو انہوں نے بھی جیل یاترا کا فیصلہ پہلے سے کر رکھا تھا۔ پھر جیل جا کر یہ اوقات نامہ طے کیا کہ روزانہ چار گھنٹے سنجیدہ پڑھائی، چار گھنٹے ہلکا پھلکا مطالعہ اور باقی چار گھنٹے تحریری کام۔ مَیں فیض یا رسل تو نہیں لیکن جب تک دم میں دم ہے، عمل اُنہی کی مثال پہ ہو رہا ہے۔
کتابوں کی ورق گردانی اِس بنا پر کہ لڑکپن میں ہماری ذہنی توانائی کے لئے بڑا آؤٹ لیٹ یہی تھا۔ سو، اِس کی عادت ہو گئی۔ ساتھ ہی بیشتر وقت پرانی فائلیں کھول کر کٹی پھٹی تحریروں کی ترتیب و تدوین بھی شروع کر دی۔ یہ دوسری یا دو نمبر کارروائی یوں مفید ہے کہ اِس میں طبع زاد تخلیق جتنی توجہ درکار نہیں ہوتی، مگر ذاتی غلطیاں نکال نکال کر آدمی اپنے تئیں ایڈیٹر ایڈیٹر محسوس کرنے لگتا ہے۔ اِس مشغولیت کی ابتدا میں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسودوں کی چھان پھٹک میں اُن ڈائریوں پہ بھی نظر پڑ جائے گی، جن کے یومیہ اندراجات کا آغاز ہوئے آج 33سال، پانچ مہینے اور سات دن ہونے کو ہیں۔ اِس دوران ناغہ ایک روز کا بھی نہیں، مگر اکثر نکات میر تقی میر کے اُس شعر کی طرح ایجاز و اختصار بلکہ ادھورے پن کا شاہکار ہیں جسے سُن کر ڈاکٹر صفدر حسین نے مجھ سے کہا تھا کہ ”جی ہاں، مگر وہ کچھ بھی نہیں جو آپ کے ذہن میں ہے“۔ شعر تھا:
وصل اُس کا خدا نصیب کرے
میر، جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
خدائے سخن کے بعد آپ میرا منتخب نمونہء کلام ملاحظہ کرنا چاہیں تو ڈائری کے اولین موسم ِ گرما میں صبح نو بجے بارنیٹ جنرل ہاسپٹل لندن میں بیٹی کی پیدائش، نام رابعہ رکھ دیا ہے …… اگلے سال بیگم نے اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن سے ایم ایس سی کر لیا، کانووکیشن میں شرکت یاد نہ رہی……آج اسد نے کہا ”اماں، پیٹ میں درد ہو رہا ہے“۔ تین سالہ بچے کو کس نے بتایا کہ پیٹ کی یہ کیفیت ’درد‘ کہلاتی ہے؟ ڈائری میں ہر روز ایک آدھ لازمی اندراج پیشہ ورانہ نوعیت کا ہے اور کوئی نہ کوئی جملہ کسی ذاتی مصروفیت سے متعلق۔ ’ہیتھرو پہ خالد حسن کا خیرمقدم‘، ’رات کا کھانا منہاج برنا، اعتزاز احسن اور شفیع نقی جامعی کے ساتھ‘، ’.برمنگھم میں شوٹنگ اور رات ضیا محی الدین کے گھر‘، ’رائل کالج آف سرجنز میں ڈاکٹر حبیب سے ملاقات‘، ’جنرل ضیا الحق کا ہوائی حادثہ، سیربین مَیں نے کیا اور شب نامہ غیور صاحب نے“۔
جن لوگوں نے علامہ اقبال کی 1910 ء کی ڈائری کا طبع شدہ ایڈیشن پڑھ رکھا ہے وہ میری یک سطری شہ سُرخیوں پہ نظر ڈالتے ہی اب تک لعن طعن شروع کر چکے ہوں گے۔ حکیم الامت کی مذکورہ نوٹ بُک اُن کی رحلت کے23 برس بعد شائع ہوئی تو ڈاکٹر جاوید اقبال نے پس نوشت کے عنوان سے اپنے تعارفی مضمون میں دو باتوں کی واضح نشاندہی کی تھی۔ ایک تو معنویت کے اعتبار سے متن کا وسیع دائرہ جو فنونِ لطیفہ، ادب و فلسفہ، سائنس، سیاست اور مذہب کو محیط ہونے کے ناتے سے اُن کے ہمہ گیر، خوش فکر اور زرخیز ذہن کی عطا ہے۔ دوسرے اقبال کا سادہ، شفاف اور پُر اثر انگریزی اسلوب جو حیران کُن حد تک برجستہ تھا۔ اِن نشان زدہ نکات کو معیار سمجھ کر اپنی ڈائریوں کے ’ون لائنر‘ اندراجات بلکہ بُلٹ پوائنٹس کو دیکھوں تو غیب سے آواز آئے گی ’کجا رام رام، کجا ٹیں ٹیں‘۔
اقبال سے موازنے کے بعد مَیں خود کو ہمدردی کا مستحق سمجھ تو رہا ہوں،مگر سچ یہ ہے کہ میرے روزنامچہ میں تجزیاتی سوچ کا فقدان آپ کو بھی محسوس ہوگا۔ اِس لئے کہ ہر رپورٹر کی مسافت ’کون‘، ’کیا‘، ’کہاں‘ اور ’کب‘ سے شروع ہو کر ’کیوں‘ کی منزل پہ ختم ہونی چاہئے۔ اِس سے آگے خصوصی وقائع نگاری اور امکانی اصلاحِ احوال کے لئے جائزے، تبصرے اور تجزیے۔ اپنی تہی دامنی کا حال یہ کہ نئی صدی سے پہلے پاکستان واپس آ کر بھی کوئی انٹری اتنی طویل نہیں کہ گرامر کی رو سے جملے کی تعریف پہ پوری اترے۔ بے نظیر حکومت ختم، وسط مدتی الیکشن اور مسلم لیگی حکومت…… ایٹمی دھماکے……اٹل بہاری واجپائی کا دورہء لاہور ……کارگل کی ناقابل فہم لڑائی…… طیارہ اغوا کیس میں نواز شریف کو عمر قید، آواری میں جاوید جبار کی پریس کانفرنس……اِس دوران موبائیل پہ اطلاع کہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں امی فوت ہو گئی ہیں …… رات نو بجے جنازے کے لئے روانگی،ہیڈ لائٹ فیوز ہونے کے باعث پانچ گھنٹے لگ گئے۔
میرے اندراجات کے مطالعہ سے ایک ایسے شخص کا ہیولہ ابھرتا ہے جو فکری ہمہ گیریت ہی سے عاری نہیں، بنیادی انسانی جذبات سے بھی مبرا ہے۔ یہ فردِ جرم سُن کر مَیں کسی خیالی اٹارنی جنرل کی پیروی میں دلائل کی کئی جہتیں سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ مطلب یہ کہ اپنی ڈائری نویسی کی شانِ نزول، یعنی اِس کام کی ترغیب کِس نے دی۔ پھر نفسیاتی پس منظر کہ مَیں ایک ’پرائیویٹ پرسن‘ ہوں، گویا شرمیلی طبیعت کا ایسا آدمی جو خود اپنے احساسات ورطہء تحریر میں لاتے ہوئے جھجکتا ہے۔ یہ تو ہوئے قانون کی زبان میں ’مِٹی گیٹنِگ سرکم سٹانسز‘ یا وہ عوامل جن سے شدتِ جرم کم محسوس ہو، مگر اِن پہ زور ذرا بعد میں ڈالوں گا۔ سب سے موثر دلیل تو میری ڈائریوں کی شماریات میں پوشیدہ ہے۔
اتنا کہہ کر مَیں پطرس بخاری والے مرید پور کے پِیر کی طرح عدالتی بنچ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراؤں گا۔ پھر ارشاد ہو گا کہ مائی لارڈ، ملزم نے روزانہ ڈائری لکھنے کی ابتدا یکم جنوری 1987 ء کو کی تھی، جسے آج شام تینتیس سال، پانچ مہینے اور سات دن ہو جائیں گے۔ اِمسال فروری کے اُنتیس ایام کو شمار کر کے گزشتہ پانچ ماہ کے دنوں کی تعداد ایک سو باون بنتی ہے۔ پھر موجودہ جون کا پورا پہلا ہفتہ ڈال لیں تو یہ ہوئے ایک سو اُنسٹھ دن۔ مائی لارڈ، اب ابتدائی تینتیس سال اِن میں شامل کیجئے تو محتاط حاصلِ جمع ہوگا بارہ ہزار دو سو چار، لیکن رواں سال کی طرح مذکورہ تینتیس برسوں میں بھی آٹھ سال ایسے ہیں جنہیں دنیا لِیپ ایئر کے طور پہ جانتی ہے۔ جناب والا، یہ لِیپ ائیر کتنا اہم ہوتا ہے، اِس کی وضاحت کے لئے مَیں کل بھی دلائل جاری رکھنے کی اجازت چا ہتا ہوں۔
اگلے دن عدالتی بینچ کے روبرو اُس ’کامِل طور پہاڑہ‘ کا تحریری نسخہ پیش کیا جائے گا جو علامہ اقبال کی جنم بھومی سیالکوٹ کے چوک پوربیاں سے پچھلی صدی کے وسط تک ایک تسلسل سے شائع ہوتا رہا۔ عدالت کو اِس پہ بھی قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ خود حضرتِ علامہ زمانہئ طالب علمی میں اِسی پہاڑے سے مترنم انداز میں استفادہ کرتے رہے ہیں۔ ’اقبال درونِ خانہ‘ میں علامہ کی بھاوج بیگم شیخ عطا محمد کا بیان ہے کہ اقبال کی آواز شیریں اور بلند تھی اور وہ بازار سے منظوم قصے لا کر ہمیں لحن سے سُنایا کرتے تھے۔ علامہ کے میٹرک کرلینے کے ٹھیک سوا سو سال بعد پہاڑے یاد کرنے کے عمل سے اُن کے تعلق کو پایہء ثبوت تک پہنچاناآسان نہیں، لیکن میری اِس ِوکیلانہ کاوش کی بدولت ٹی وی پہ کچھ موافقانہ ٹِکر تو چل ہی جائیں گے۔ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ اُن ایام کی تعداد جن میں ملزم نے ہر روز ڈائری لکھی لِیپ کے مہینوں سمیت بارہ ہزار دو سو بارہ ہو گئی ہے۔ وجہ اُس کی ’کامِل طور پہاڑہ‘ میں درج اشعار ہیں:
تِیس دن ستمبر کے
اپریل، جون، نومبر کے
فروری کے اٹھائیس
باقی سب کے ایک اور تیس
فروری جب لِیپ کا آئے
اٹھائیس پر ایک بڑھائے
اِن اشعار کا مقصد اپنے بارے میں قائم مجموعی تاثر کی بے انصافی کا احساس دلانا تھا۔وہ یہ کہ اگر میری ہر ڈائری کے یومیہ اندراجات کی اوسط دس فی دن سمجھ لی جائے تو چونتیس ڈائریوں کے کُل اندراجات ہوئے ایک لاکھ بائیس ہزار ایک سو بیس۔ اب آج کے کالم میں اگر مَیں نے ایک سو بائیس اقتباسات کا حوالہ بھی دیا ہو (اصل تعداد کہِیں کم ہے) تو، مائی لارڈ، یہ تناسب ہوا ’ایک فی ہزار‘۔ آسان الفاظ میں کہیں گے کہ اندراجات کے یہ نمونے بالکل غیر نمائندہ ہیں اور کورونا اعداد و شمار کی طرح حقیقی رجحان کی عکاسی نہیں کرتے۔ اِس پر ملزم کو چیمبر میں بلایا جا سکتا ہے کہ یار، چپکے سے اصل بات بتا دو۔ مَیں کہوں گا کہ ڈائری لکھنے کی ترغیب لندن میں مقیم صحافی ہمراز احسن نے دی تھی، صرف اِس لئے کہ دفتر میں جو اضافی کام کروں اُس کی دستاویزی شہادت اپنے پاس رہے۔ پوچھیں گے: ”تو پیشہ ورانہ کام کے علاوہ باقی باتیں کہاں سے آ گئیں؟“ مَیں ایک معشوقانہ ہنسی ہنس کر کہہ دوں گا: ”میری ڈائری، میری مرضی“۔