جب میَں نے سنیما دیکھنا شروع کیا
60 سال سے کم عمر قارئین کے لئے بائی سکوپ (Biscope) شائد غیر مانوس لفظ ہو۔ حرکت کرتی ہوئی فلمز کا پہلا ٹیکنیکل نام یہ ہی تھا۔ 40کی دہائی میں اس کا نام ٹاکیز پڑا کیونکہ حرکت کرتی ہوئی فلمز اَب ڈائیلاگ بھی بولتی تھیں۔ اس لئے اُن دِنوں کے فلمی تھیٹرز کے نام بھی ٹاکیز پر ختم ہوتے تھے۔ 1950 کے بعد لفظ سنیما آگیا۔ اور اَب تمام دنیا میں حرکت کرتی اور بولتی ہوئی فلموں کا نام مووی(Movi) کے طور پر بولا جاتا ہے۔ 85 سال کی عمر قریباً ایک صدی ہی ہوتی ہے۔ میَں ہائر سکنڈری تک تعلیم حاصل کرتے ہی عملی زندگی میں آگیا تھا۔ 1950 میں دھلی یونیورسٹی سے میَں نے گیارویں جماعت پاس کی۔ دراصل والد صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا کہ اُنہوں نے سوِل ملازمت کے لئے پاکستان کو کیوں OPT نہیں کیا۔ ہوا یوں کہ پارٹیشن کے بعد پڑھے لکھے شرفا پاکستان ہجرت کر چکے تھے۔ فسادات کی وجہ سے والد صاحب نئی دھلی کی سرکاری رہائش گاہ چھوڑ کر پُرانی دھلی کے قریب دریا گنج شفٹ ہو گئے تھے۔ یہ آبادی پڑھے لکھے چھوٹے درجے کے مسلمان بابولو گوں کا ذرا بہتر محلہ تھا۔ ساتھ ہی کوچہ چیلاں، کلاں محل اور پُرانی دھلی کے دوسرے تاریخی محلے تھے۔ میری کمپنی محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ زیادہ رہنے لگی۔ 15 سال کی عمر میں سکول سے بھاگ کرMaitnee شو میں نذیر اور نور جہاں کی فلم ”گاؤں کی گوری“4 ½ آنے والی کلاس میں دیکھی۔ اُس فلم کو دیکھ کر ایکٹر بننے کا شوق پیدا ہوا اور میَں اپنے ایک ہندو دوست گیان کے ساتھ بمبئی بھاگ گیا۔ وہاں کیا ہوا۔ کیسے ہم دونوں وہاں سے ناکام لوٹے۔ کیسے والدین سے مار پڑی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔والد صاحب اچھے عہدے پر تو ضرور فائز تھے لیکن اُنہیں اَندازہ ہو گیا تھا کہ ہندوستان کے آنے والے زمانے میں مسلمان نوجوانوں کا مستقبل اچھا نہیں ہو گا۔مسلمانوں کاجو طبقہ ہندوستان میں ہی رہ گیا تھا وہ پہلے بھی ”کرخندار“(کارخانے دار)تھا۔ پارٹیشن کے بعد تو یہ طبقہ تعلیم میں بالکل ہی پیچھے رہ گیا کیونکہ اُنہوں نے بچوں کو سکول کی بجائے کام کاج کے اڈوں پر بیٹھانا شروع کر دیا۔ یہ کرخندار طبقہ مالی طور پر تو بہتر ہو گیا لیکن رہن سہن اور تعلیم میں ترقی نہ کر سکا۔ اس طبقے کا کلچر اور اِن کے آج کے سماجی مسائل پر ایک الگ مضمون درکار ہو گا۔ 1950 میں میَں نے ہائیر سکنڈری بڑی مشکل اور کم تر درجے سے پاس کر لیا۔ میری دوسری والدہ نہائت نیک اور شفیق خاتون تھیں لیکن میں ہی اُن کو زیادہ تنگ کرتا تھا۔ گلی محلّوں میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومنا، گھر سے کبھی پیسے چوری کر کے سنیما دیکھنا۔ میری عمر کے لوگوں کو شائد یاد ہو کہ سکول کے ٹائم میں کچھ سنیما ہاؤس پرانی فلمیں آدھے ٹکٹ پر چلاتے تھے۔ یہ تھیٹر ہندوؤ ں کے ہوتے تھے لیکن مسلمانوں کے محلّوں میں۔ آج میَں کہہ سکتا ہوں کہ یہ تھیٹر خاص پروگرام کے تحت مسلمان نوجوانوں کو تعلیم سے دُور رکھنے کے لئے پُرانی پکچرز آدھے داموں میں دکھاتے تھے۔ میَں نے ایسی ہی پرانی فلم برسات سب سے کم ٹکٹ والی کلاس میں دیکھی تھی۔ والد صاحب نے اُسی روز سکول میں چھاپہ ماراتھا، ظاہر ہے میری غیر حاضری کا نتیجہ اُسی شام کو تگڑی مار کی شکل میں مِلا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میرے والد صاحب نے مجھے پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُن دِنوں پاکستان جانے کے لئے پاسپورٹ سسٹم نہیں تھا۔ والد صاحب پاکستان ہائی کمشنر کے دفتر مجھے لے گئے اور وہاں سے مجھے پاکستان میں داخل ہونے کا ”پرمٹ“مل گیا۔میَں براستہ گنڈا سنگھ والا بارڈر قصور شہر پہنچ گیا۔ والد صاحب فیروز پور تک میرے ساتھ آئے۔ قصور سے لاہور اپنی پھوپی کے گھر آگیا۔ پھوپی کے دو نہائت ہی شریف اور پڑھا کو بیٹے تھے قریباً میری ہی عمر کے۔ وہ تو میرے ورغلانے میں نہیں آئے۔ لاہور پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد ہی میَں نے ایک ٹوٹا پھوٹا سا سنیما ہاؤس ڈھوند ہی لیا۔ ریکس ٹاکیز کے نام سے۔ وہاں میَں نے پہلی پاکستان فلم پھیرے دیکھی۔ وہ بھی نذیر اور سورن لتا کی تھی اور اُن کی بنائی ہوئی فلم ”گاؤں کی گوری“ کا سو فیصد چربہ تھی۔ سچی بات ہے اُس وقت تو میَں یہ باریکی نہیں سمجھتا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں فلمی رسالوں سے پتہ لگا۔ فلم ایکٹر بننے کا شوق ختم نہیں ہوا تھا اپنا ”چَس“ پورا کرنے کے لئے ہندوستان کا اُردو رسالہ شمع مانگ کر ضرور پڑھتا تھا۔ میَں پاکستان 1951 کے ستمبر کے مہینے میں آیا تھا۔ پھوپی اور اور اُس کے بہت ہی شریف بیٹے مجھ سے خوش نہیں تھے۔ دو مہینے میں ہی تنگ آ کر مجھے کراچی میرے چاچاؤں کے پاس بھیج دیا۔ وہاں بھی آواہ گردی اور سنیما بینی قائم رہی۔ ہندوستانی پُرانی فلمیں بندر روڈ کے تھیٹروں میں لگتی تھیں۔ والد صاحب نے پاکستان آتے ہوئے جو زادِراہ دیا تھا وہ سنیما بینی پر ہی خرچ ہوتا رہا۔
جنوری 1952 آگیا۔ 24 جنوری میری زندگی کا اہم ترین بلکہ آج کل کے گھسے پٹے انگریزی محاورے کے مطابق یہ دن Game changer بن گیا۔ RPAF کی بھرتی برائے apprentice کھلی ہوئی تھی۔ اُس وقت ہماری ائیر فورس، رائل پاکستان ائیر فورس (RPAF) کہلاتی تھی۔ بے سر و سامانی کی حالت تھی۔ آدھی ائیر فورس برٹشRAF کے گوروں سے بھری ہوئی تھی۔ کارپورل رینک بھی اکثر گوروں کے پاس تھا۔ اللہ جانے بھرتی کرنے والے گورے سارجنٹ نے مجھ ناکارہ سے آدمی میں سے کیا ڈھونڈ نکالا،کیونکہ نہ صرف میَں بطور اپرنٹس بھرتی بھی ہو گیا، مجھے نہائت شاندار Trade بطور Radar mechanic مل گئی، اس ٹریڈ کی تربیت 3 سال کے لئے برطانیہ میں ہوتی تھی۔ لو جی میَں ایک ناکارہ سا اور بے شعورا لڑکا لوئر ٹوبہ مری میں ابتدائی فزیکل ٹریننگ کے بعد سمارٹ اور نکھرا نکھرا سا فوجی وردی میں ملبوس ایک سمارٹ سپاہی بن گیا۔ کچھ ہی دِنوں کے بعد ائیر فورس کا Freighter جہاز ہمیں لندن لے گیا۔
UK میں پہلی دفعہ انگریزی فلمیں دیکھنے کا موقع ملِا اس سے پہلے 4 اُردو فلمیں ہندوستان میں دیکھی تھیں۔ میری پہلی فلم شائد”قسمت“تھی جو میَں نے 1944 میں اپنے چھوٹے چاچا کے ساتھ 9 سال کی عمر میں جگراؤں (ضلع لدھیانہ)میں ایک بڑے سے شامیانے کے نیچے زمین پر بیٹھ کر دیکھی تھی۔ مجھے تو اُس وقت فلم کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔یہ تو بہت سالوں بعد چاچا عزیز(مرحوم)نے مجھے بتایاتھا۔یہ فلم ہم دونوں نے دادا جی سے چھُپ کر دیکھی تھی۔ میری سمجھ میں نہ فلم کی کہانی آئی تھی اور نہ ہی گانوں کی سُرتال کا پتہ تھا۔ چھوٹا چاچا مجھ سے 10 سال بڑا تھا۔ لدھیانے شہر میں کالج میں پڑھتا تھا۔ جب بھی جگراؤں آتا تو مجھے بائی سکوپ دکھانے بطور ایک پخ کے ساتھ لے جاتا۔ دوسری فلم بھی اُس ناسمجھی کے دِنوں میں ہی دیکھی تھی۔اُس کا نام پتہ نہیں کیا تھا۔ دراصل دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے میرے والد صاحب اِنڈین آرمی میں کمیشن لے کر ہندوستان سے باہر پوسٹ ہو گئے تھے۔ میری والدہ میری Infancy میں ہی انتقال کر چکی تھیں اس لئے میَں اپنے دادا کی تحویل میں تھا۔ 1947 کے بٹوارے سے پہلے ہی والد صاحب بطور میجر ریٹائیر ہو کر ہندوستان کی سوِل سروس جوائن کر کے دھلی میں ہی تعینات ہوگئے تھے۔ میری دوسری والدہ دھلی کے ایک معزز مغل گھرانے سے تھیں۔ غالباًاسی وجہ سے والد صاحب نے ملازمت کے لئے ہندوستان OPT کیا۔ میرے دادا جی 1947 میں پاکستان ہجرت کرتے وقت، مجھے میرے والد صاحب کے پاس دھلی چھوڑنے آئے۔ میری زندگی کا پہلا ٹرین کا سفر 1947 میں بارہ سال کی عمر میں ہوا۔ ریل کے ڈبے میں ہی بجلی کا بلب دیکھا۔ ہمارے قصبے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی لالٹین اور لیمپ ہوتے تھے روشنی کے لئے۔
فلم دیکھنے کا شوق UK جا کر پورا ہوا۔ ہمارے ٹریننگ یونٹ میں ہمارے لئے یونٹ سنیما ہوتا تھا جس میں ہفتے میں 3 انگریزی فلمیں لگتی تھیں۔ ہم زیرِ تربیت لڑکے صرف جمعہ اور ہفتے کو فلم دیکھ سکتے تھے۔ 3 مہینوں میں ہی ہمیں فلم میں بولی جانے والی انگریزی اور اُس کے Slangs سمجھ میں آنے شروع ہو گئے تھے۔ فلمی ادکاروں کے نام بھی ازبر ہو گئے بلکہ اداکاروں کے نام سے فلم کی سٹوری کے رُخ کا اندازہ بھی ہو جاتا تھا کہ فلم کاؤ بوائے ٹائپ ہو گی یا مزاحیہ یا سراغ رسانی والی ہوگی یا الفریڈ ہچکاک کی پُرسراریت والی۔ ہمارے زمانے میں (1952-54) ورلڈوار 2 پر اور مافیا والی فلمیں ابھی عام نہیں ہوئی تھیں۔ مارکٹائی اور گن شوٹنگ صرف کاؤ بوائے فلموں میں ہوتی تھی۔ اِن فلموں کے اداکار آج تک دنیا کے بہترین آرٹسٹ مانے جاتے ہیں۔ جان وائن جیمس سٹورڈ، کلارک گیبل، گریگوری پیک، ولیم ہولڈن، ٹونی کر ٹس، سٹورٹ گرینجر، ڈین مارٹن اور جیر ی لوئس ہمارے زمانے کے لازوال ایکٹر تھے۔دیگرایکٹر اور اداکارئیں تو بے تحاشہ تھیں لیکن میَں اِن ہی اداکاروں کی فلمیں شوق سے دیکھتا تھا۔ اُنہی دِنوں Jean بطورایک گارمنٹ کے پاپولر ہونی شروع ہوئی۔ اُن دِنوں ہم ابھی برانڈ مائنڈڈ نہیں ہوئے تھے۔ہم تو اپنے فیورٹ ایکٹر کے سٹائل کی جین خریدا کرتے تھے۔ فلاں فلم میں سٹیورٹ گرینجر نے یا John wyne نے اگر جھالروں والی جین پہنی ہوئی ہے تو ہم ویسی ہی خریدتے تھے۔ بلکہ ہم کاؤ بوائے Hat خرید کر اپنے فیورٹ ایکٹروں کی چال چل کر کیمپ میں چھٹی والے دِن گھومتے تھے۔رنگین فلمیں ہم نے برطانیہ میں ہی دیکھی تھیں۔ برصغیر کی فلمیں ابھی بلیک اینڈ وائٹ میں تھیں۔
جب ہم 1954 میں پاکستان واپس آئے تو ہمیں ڈرگ روڈ(موجودہ شاہراہِ فیصل)پر واقع ائیر فورس اسٹیشن میں ٹھہرایا گیا۔ (ائیر فورس میں Base کی اصطلاح بعد میں آئی)۔ یہ بہت بڑا کیمپ تھا۔ دو سنیما تھے جہاں انگریزی بہت اور کم کم اُردو فلمیں لگتی تھیں۔ اُردو فلمیں 1955 تک دھیمے مزاج کی تھیں۔ ابھی بڑھک مارنے کا رواج نہیں آیا تھا۔ ہمارے ایکٹروں کوابھی جوڈو کراٹے کے داؤ پیچ لگانے بھی نہیں آتے تھے۔ابھی ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے اداکار ہی کام آ رہے تھے، نذیر, درپن، سنتوش کمار، اسلم پرویز اور سدھیر وغیرہ ہندوستان میں ابھی قدم جمانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ 1947-49کے درمیان پاکستان آچکے تھے۔ اِن کے ساتھ ہی سینئر ایکٹرز، علاؤ الدین، ایم اسمعیل، شاہنواز، نذر، ہمالیہ والا، الیاس کشمیری، مظہر شاہ، نور جہاں،سورن لتا، مینا شوری اور راگنی بھی پاکستان آ چکے تھے۔ 1960 میں پاکستانی فلموں کے نئے ہیرو آئے، جیسے حبیب، محمد علی، وحید مراد،اعجاز اور اکمل وغیرہ۔ پنجابی فلموں کا رواج 1965 کے بعد زور و شور سے ہو گیا اور مظہر شاہ، سلطان راہی اور اکمل کی بڑھکوں نے اور موٹی تازی پنجابی فلموں کی ہیرؤینز کے چھلانگیں لگانے والے بے ہودہ ناچ گانوں نے ہمارے فلم بینوں کا مزاج کہانی کی جگہ گنڈاسے اور ہیرؤینز کے فربہ جسموں کی طرف موڑ دیا۔ اُسی زمانے میں ہی انگریزی ایکشن فلمیں مارکیٹ میں آ گئیں، جن میں بروس لی، جیکی چن جیسے پھرتیلے اداکاروں نے جوڈو کراٹے دکھا کر اُس وقت کی جوان نسل کی توجہ حاصل کرلی۔ ہم بڑی عمر والوں کے لئے 007 جیمز بانڈ والی فلمیں جن میں کچھ کہانی بھی ہوتی تھی، لڑائی بھی ہوتی تھی اور ٹیکنالوجی کی حیران کُن نمائش بھی ہوتی تھی۔اوریوں پاکستانی مڈل اور امیر کلاس پاکستانی فلموں سے دُور ہونی شروع ہوئی۔ پاکستانی فلموں کی مارکیٹ قصباتی اور غریب علاقوں کے سنیما گھروں تک محدود ہوگئی۔ 1995 تک پاکستانی سنیما کا زوال آچکا تھا۔VCR نے بھی سنیما بینوں کو گھر میں بیٹھا دیا۔ سنیما گھر پلازوں اور ہوٹلوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ نمائش کار اور تقسیم کار مارکیٹ سے نِکل گئے تو پیش کار اور سرمایہ کار بھی گھٹیا فلمیں بنانے لگے۔ کچھ پروڈیوسروں اور بہادر ایکٹروں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں جان ڈالنے کی کوشش کی لیکن کب تک۔ سمارٹ فون اور یو ٹیوب نے میرے جیسے بڈھے سنیما بینوں کو تھیٹرسے بالکل ہی کاٹ دیا۔ سنیما ہاؤسز کی نئی ٹیکنالوجی سے Revival ہو تو رہی ہے، بہت اچھی کوشش ہے۔ میرے جیسا عمر رسیدہ شخص بھی 3-4 موویز اِن سنیما گھروں میں دیکھ چکا ہے۔ گو اَب نہ ایکٹروں کے نام آتے ہیں بلکہ سنیما سے باہر نکلتے ہی فلم کانام بھی یاد نہیں رہتا۔