نئے ٹیکسوں کا نیا انداز
کسی بھی ملک کا بجٹ اس کی ترقی اور معاشی حالات کا عکس ہوتا ہے اور سال بھر کے تخمینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے سال میں کیا ہو گا، بجٹ ہی میں سالانہ آمدن اور خرچ کے تخمینے بھی ہوتے ہیں،ہر سال بجٹ سے قبل مطالبات بھی سامنے آتے اور خدشات بھی ظاہر کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پرانا دستور ہے کہ مالی سال کے دوران سرکاری آمدنی کے لئے ٹیکسوں میں ردوبدل بھی کر لیا جاتا ہے۔عرصہ ہوا جب نیم خود مختار اداروں کو الگ سے آمدنی بڑھانے کے لئے ٹیکس کی شرح بڑھانے اور نرخوں میں اضافے کا اختیار دیا گیا، تب سے یہ منی بجٹ الگ آتا ہے، گیس کے بعد بجلی والوں نے بھی سلیب سسٹم اختیار کیا اور غیر محسوس انداز میں صارفین پر مالی بوجھ بڑھا دیا گیا۔ اس طریقہ کو مفید جانا گیا اور دوسرے محکمے بھی اس نظام کو اپنا رہے ہیں۔گزشتہ ماہ سے واسا کی طرف سے بھی سلیب سسٹم شروع کر دیا گیا اور یوں غیر محسوس انداز میں پانی کے بل140 روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھا دیئے گئے،جبکہ زیادہ پانی استعمال کرنے والے بل اس سے زیادہ دیں گے۔ایک خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی تجویز پر صاد کیا گیا اور اب پنشن کو بھی آمدن شمار کر کے 7.5فیصد کے حساب سے ٹیکس لگایا جائے گا،حالانکہ پنشنر حضرات گذارہ نہ ہونے کی وجہ سے پنشن میں اضافے کا مطالبہ کر رہے، کئی سال سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھ جاتی ہیں،لیکن پنشن کی شرح جوں کی توں ہے۔عوامی سطح پر یوٹیلٹی بلوں میں سلیب نظام کے ذریعے بلامنظوری اضافے اور اب پنشنوں پر ٹیکس کو منی بجٹ قرار دیا جا رہا ہے،کہ پنشن میں اضافہ تو کیا نہیں جاتا اور اب اس پر ٹیکس لگا کر بزرگ شہریوں کو بھی زیر بار کیا جا رہا ہے۔یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے اگر ایسا نہ ہوا تو احتجاج ضرور ہو گا۔