اک ذرا احتیاط کہ……
اک ذرا احتیاط کہ……
آج تشویش در تشویش کے پھیلتے سایوں کی بنیادی وجہ انتہاؤں کا وہ سفر ہے جو سیاسی قیادت کی طرف سے جاری ہے کیا یہ رویہ ملک یا کم از کم ملکی سیاست کو بند گلی میں دھکیل رہا ہے؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں نظر آ رہا، خدا خدا کر کے مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دی تو اسے فی الفور مسترد کرنا ہی ضروری سمجھا گیا ہو سکتا ہے اس پر کچھ دن بحث مباحثہ ہوتا تو تاؤ میں کچھ کمی آ جاتی اور کوئی بہتر صورت نکل آتی مگر اتفاق سے اسی روز مقبول ترین جماعت ہونے کی دعویدار پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس تھا اس میں موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیدیا گیا۔ بنی گالا میں یہ اجلاس چیئرمین عمران خان کی پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری اور کافی دنوں کے قیام پشاور کے بعد اپنے گھر آمد کے تھوڑی دیر بعد ہی منعقد ہوا، تحریک انصاف کی فعالیت کا کمال یہ ہے کہ ایک دن کے نوٹس پر ہی ساری کور کمیٹی بنی گالا میں آن موجود تھی۔ اس اجلاس میں گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز مسترد کرنے کے علاوہ بھی کئی اہم فیصلے تھے جو اخبارات کی شہ سرخیاں بن سکتے تھے ان میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے ارکان کے سپیکر کے پاس پیش ہو کر تصدیق کرانے سے انکار کا فیصلہ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے، حلقہ بندیاں چیلنج کرنے، لانگ مارچ پر تشدد کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف مقدمات درج کرانے، بجٹ کے بعد مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج اور عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں شدید رد عمل کے فیصلے شامل ہیں۔ اب اسے حالات کا جبر یا سیاسی حکمت عملی کہیں کہ ایک طرف تحریک انصاف حکومت کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور دوسری طرف اسی حکومت کے زیر سایہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کو تیار ہے اصل میں پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات بہت کچھ طے کریں گے جتنے انصافی ایم پی اے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لئے ووٹ دینے کی پاداش میں نشستوں سے محروم ہوئے ان سب کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اگر ان کی اکثریت جیت جاتی ہے تو ایک طرف حمزہ شہباز کی حکومت بچ جائے گی تو دوسری طرف آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی اہمیت دو چند ہو جائے گی جبکہ تحریک انصاف کے مقبول ترین جماعت ہونے کے دعوے کو زک پہنچے گی، پی ٹی آئی اگر بیس میں سے تیرہ نشستیں جیت گئی تو حمزہ شہباز کی اکثریت ختم ہو جائے گی اور صوبائی حکومت تحریک انصاف کی جھولی میں آ گرے گی۔ پھر وفاقی حکومت کا چلنا بھی محال ہو جائے گا۔ مسلم لیگ کے پاس ایک صوبائی حکومت بھی نہیں ہو گی تو وفاقی حکومت کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ اسی لئے تحریک انصاف کی قیادت نے سیاسی جواء کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نشستوں سے محروم ہو کر مسلم لیگی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں پر لوٹا ہونے کی پھبتی تو پہلے ہی مقبول ہو چکی ہے ان کے خلاف تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہوگا کہ جو پارٹی سے وفادار نہیں وہ ووٹ کا حقدار نہیں، اس کے علاوہ ان امیدواروں کا گلی محلوں اور بازاروں میں لوٹوں سے استقبال کرنے کا بھی اہتمام کیا جائے گا، اس کے مناظر ماضی میں ملتان میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی دیکھنے میں آئے تو جب بڑے سیاسی قد کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیدیا اور ضمنی الیکشن لڑا۔ ان کے مقابل موجودہ ایم این اے ملک عامر ڈوگر تھے۔ وہ بھی اگرچہ آزاد امیدوار تھے تاہم پی ٹی آئی غیر اعلانیہ طور پر ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی وہ نو آموز تھے مگر ان کے کارکنوں نے نماز عید کے موقعہ پر مخدوم جاوید ہاشمی کو لوٹے دکھا دیئے حالانکہ جاوید ہاشمی نے اصولی فیصلہ کیا تھا اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتی نشست کے ساتھ کسی اور پارٹی کے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ مستعفی ہو کر دوبارہ عوام کے پاس چلے آئے تھے، مگر نوجوان عامر ڈوگر سے ہار گئے۔
اب بھی تحریک انصاف ویسا ہی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے گی اب دیکھیں اس سیاسی جوئے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن اس دلیل میں بھی بہر حال وزن ہے کہ دنیا میں ہر لڑائی کا اختتام ڈائیلاگ، باہمی گفت و شنید پر ہی ہوتا ہے اس سے تنازعات کا حل نکلتا ہے، پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری عالمی جنگ ویتنام کی لڑائی ہو یا ہانگ کانگ کے مستقبل کا معاملہ ہر بار معاملہ مذاکرات کی میز پر ہی طے ہوا۔ یہاں تو معاملہ ہی سیاسی ہے، قبائلی لڑائی یا خونیں جنگ کا نہیں۔ ایک مسئلہ مسلم لیگی صفوں میں بھی سر اٹھا رہا ہے وہ ہے ان بیس حلقوں میں متحرک اور فعال کارکنوں کا معاملہ جو ہر الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے متمنی ہوتے ہیں وہ باہر سے آنے والے امیدواروں کو اپنے حلقوں میں قدم جمانے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ اگر یہ جیت گئے تو ان کی مستقل چھٹی ہو جائے گی۔ ملتان میں ملک عامر ڈوگر کے مقابل مخدوم جاوید ہاشمی کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ مقامی مسلم لیگی رہنماؤں نے ان کی حمایت میں سرگرمی نہیں دکھائی تھی، اب یہ معاملہ لیگی قیادت کے لئے ایک چیلنج ہوگا بظاہر اگر لیگی صفوں میں درآمدی امیدواروں کے خلاف بغاوت نہ بھی ہوئی تو سردمہری یا لاتعلقی بھی نقصان دہ ہو گی، تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر تھوڑا نقصان بھی گہرے گھاؤ لگا سکتا ہے اگر اس مرحلے پر مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت گرتی ہے تو پھر آئندہ عام انتخابات سے امیدیں وابستہ کرنا مشکل ہوگا۔ دوسری طرف اگر پی ٹی آئی ضمنی الیکشن میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو دھاندلی کے الزام کا آغاز تو کر ہی دیا جائے گا، اسی بنیاد پر احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا جائے گا جو آئندہ جنرل الیکشن کے لئے انتخابی مہم کا ہی حصہ ہو گی۔ اس لئے فریقین کو پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں گے اور اپنی اپنی سیاست کو بند گلی میں جانے سے روکنے کے لئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، انتہاؤں کو چھوتی سیاست، غیر سیاسی کھلاڑی کے میدان میں کودنے کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ جو کسی کے فائدے میں نہیں ہوگا۔ ملک کے نہ سیاست کے!!