مستقبل کا سیاسی ایجنڈا

  مستقبل کا سیاسی ایجنڈا
  مستقبل کا سیاسی ایجنڈا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آجکل ملک گھمبیر بحران کی زد میں ہے اور صورتحال اسقدر پیچیدہ ہے کہ کوئی بھی پورے وثوق سے کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ بہرحال ہر صاحب دانش عام آدمی کی کچھ نہ کچھ رہنمائی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس بحران کا انجام مثبت ہو اور ہم بحیثیت قوم کچھ سیکھ سکیں اور یوں اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی قومی سیاست سے فی الحال تو مائنس ہو گئی۔ اگرچہ پارٹی کا وجود تو رہے گا لیکن سیاسی میدان میں اس کا لیڈنگ رول نظر نہیں آتا۔یہ جس تیزی سے وجود میں آئی تھی اُس سے زیادہ تیز رفتاری سے بکھر رہی ہے۔ اِس میں بھی بڑے سبق پوشیدہ ہیں کاش ہمارے سیاستدان کچھ سیکھ سکیں۔ اچھے سیاستدان کی خوبیوں میں تحمل، لچک اور دوربینی کی صفات کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سیاست نفرت، جلدبازی، تکبر اور بڑھکوں کا نام نہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ بزنس ہے۔یہ ایک ون ڈے میچ نہیں ہوتایہ طویل اننگز کا کھیل ہے۔ ہمارے ہاں مشکل سے دو پارلیمنٹس نے اپنی مدت پوری کی ہے اور اب موجودہ پارلیمنٹ بھی اپنی مدت پوری کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح  وزیراعظم بدلنے کا کھیل بھی بند کرنا چاہئے۔ اچھا ہوتا اگر عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو ہم سیاسی میجورٹی کا یہ ہدف بھی حاصل کرلیتے لیکن اب وقت گزر گیا ہے، اگر عمران خان کو آئینی طریقے سے ہٹا دیا گیا تھا تو کاش وہ تھوڑا سا صبر کر لیتے۔ بیشک کچھ تلخی تو قدرتی تھی لیکن وہ اکتوبر تک انتظار کر لیتے اور اس دوران بھرپور سیاسی کردار ادا کرتے اور اپنی مقبولیت سنبھال کر رکھتے تو وہ دوبارہ وزیراعظم بن سکتے تھے اور ملک موجودہ بحران سے بھی بچ جاتا لیکن افسوس کہ انہوں نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ نہ کیا اور مسلسل ہنگامہ بپا کئے رکھا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو بھی نقصان ہوا اور وہ خود بھی سب کچھ گنوا بیٹھے۔
اب کیا ہو گا اس پر بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ایک خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی مائنس عمران بننے جا رہی ہے۔عمومی رائے یہ ہے کہ عمران خان کو ویسے بھی نااہل کر دیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی روایتی پارٹیاں ہیں اور بڑی حد تک Status Quo کی علامت ہیں۔ اِن میں نئے خون اور نئے خیالات کا فقدان ہے۔ اِن دونوں نے نئی نسل کو نظرانداز کیا اور ٹیکنالوجی کی اہمیت نہیں سمجھ سکے جس کا فائدہ عمران خان نے اُٹھایا۔


چوہدری شجاعت حسین والی (ق) لیگ کی بھی لاٹری نکل آئی ہے۔ وہ بھی ایک مضبوط گروپ بن کر اُبھرنے والی ہے۔ پھر سب سے مضبوط گروپ ترین صاحب کا نظر آ رہا ہے۔ جہانگیر ترین نے ہی پی ٹی آئی کو کھڑا کیا تھا اور اب وہ سارے Electables انہی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ بہت جلد پارٹی کا اعلان کر دیں گے اور شاید اُن کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کے اس ماحول میں سب سے طاقتور گروپ بن جائے گا۔ جہانگیر خان ترین میں لیڈر شپ کی تقریباً تمام خوبیاں ہیں۔ وہ امریکہ سے پڑھے ہوئے ہیں۔ مالی لحاظ سے بھی مضبوط ہیں۔ وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں ایک شریف اور سنجیدہ آدمی ہیں اورانہیں ایڈمنسٹریشن کا بھی تجربہ ہے لہٰذا وہ پارٹی کی صدارت کیلئے موزوں ہیں تاہم اُن کے ساتھ بھی چند ایک مسائل ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہیں اگرچہ نئے قانون کے تحت اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپیل کی صورت میں ان اور میاں نوازشریف پر تاحیات پابندی اُٹھا لی جائے گی لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی پارٹی کی Idiology کیا ہو گی وہ عوام میں کونسا سودا بیچیں گے؟ وہ عمران خان کی طرح ہیرو نہیں ہیں نہ ہی وہ بڑھکیں مار سکتے ہیں تو پھر وہ کیا کہیں گے؟ میرے خیال میں جہانگیر ترین کو ڈلیوری کے آئیڈیا پر کام کرنا چاہئے وہ کہہ سکتے ہیں کہ نعرے بازی اور ہوائی باتوں کا نتیجہ سامنے آ چکا ہے اِس لئے کام کی بات کی جائے۔ وہ اپنا ترقیاتی ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کریں۔ ملک کو عملی کام کی بڑی ضرورت ہے میرے خیال میں لوگ ترین جیسے سنجیدہ آدمی پر اعتبار کر لیں گے اگر ایسا ہو گیا تو اس سے ملک کا بھلا ہو گا۔
مجموعی صورتحال دیکھیں تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اِن میں سے کوئی گروپ یا پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی لہٰذا آئندہ بھی کم از کم پنجاب اور مرکز میں مخلوط حکومت بنے گی۔ مخلوط حکومت ایک طرح سے مضبوط حکومت ہوتی ہے کیونکہ اُس میں مختلف طبقوں اور صوبائی نمائندگی لیکن اگر اتحادی سیاسی میجوریٹی نہ دکھائیں اور ملکی مفاد کو ترجیح نہ دیں تو یہ حکومت کمزور ترین ہوگی جس کے نتائج موجودہ مخلوط حکومت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -