سمندروں کے سفرپہ نکلو

  سمندروں کے سفرپہ نکلو
  سمندروں کے سفرپہ نکلو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لاطینی امریکہ کے مچھیروں کاکہناہے کہ سمندرایک عورت ہے۔لہروں کے متعلق ان کاعقیدہ ہے کہ جب یہ ساحل کی طرف آتی ہیں توخوشیاں ساتھ لے کر آتی ہیں،اورجب واپس سمندر کی طرف پلٹتی ہیں توغموں کواپنے ساتھ سمندرمیں بہاکرلے جاتی ہیں۔شایدیہ امیداورعقیدہ ہی ساحل کی طرف آنے کی وجہ بنا۔خیرسمندرکی طرف آنے کے اسباب میں چھٹی کادن اورذہنی فراغت بھی شامل تھی۔بحرالکاہل کے جس ساحل کے کنارے آج دوپہرکاکھاناکھانے بیٹھاہوں یہ لاطینی امریکہ سے کم ازکم دس ہزارکلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے، مگرآج جاپان کے مضافات میں اس دورافتادہ ساحلی بستی میں پہنچتے ہوئے میں نے جومشترکہ چیز محسوس کی وہ ساحل کی ہوامیں رچی بسی ایک سی خوشبوہے۔میں نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں بندکرکے ہواکے لمس کواپنے چہرے پراورساحلی ہواکی خوشبوکواپنے نتھنوں میں محسوس کیاتوایک لمحے کے لئے توبالکل یہی احساس ہواجیسے میں چلی،پیرویاارجنٹیناکے کسی ساحل پرکھڑاہوں۔ ہوامیں رچی بسی ویسی ہی نمکین نمی کااحساس ہزاروں میل دورسمندرکے دوسرے کنارے پربھی ہوتاہے۔سمندرکے پانی کارنگ،اس کی جھاگ اڑاتی منہ زورلہریں اورمخصوص نمکین ذائقہ بھی بالکل ویساہی ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دیگر سمندروں کارنگ،خوشبو،ذائقہ الگ ہے۔یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا ہرسمندرکی اپنی فضاہے اورمخصوص آب وہواکے علاوہ آبی حیات اورساحلوں پرپائے جانے والے چرندوپرندتک مختلف ہیں۔


سمندرکبھی کبھی بیماربھی ہوجاتاہے۔جیساکہ ابھی آپ سے لاطینی مچھیروں کاتذکرہ کیا،ان کایہ بھی عقیدہ ہے کہ سمندرایک زندہ چیزہے۔ساگرکوناری قراردینے کاسبب توطویل عرصے تک لہروں کے رحم وکرم پررہنے اورخواتین سے ماہی گیروں کی دوری بھی ہوسکتی ہے۔ مگرسمندرکے بیمارہونے کی دلیل کے طورپرمیرے دوست سرخیوآلیخاندروراویرونے سمندر میں مجھے ایسی جگہیں دکھائیں،جہاں پانی زرد رنگت اختیارکئے ہوئے اورٹھہراہوامحسوس ہورہاتھا۔ اس کی وجہ اس نے مجھے فضائی آلودگی اوروہ آلائشیں بیان کیں جوہم انسان سمندر بردکردیتے ہیں۔ہم مچھلیاں پکڑنے گہرے سمندرمیں گئے تھے مگرمچھلی توکیااس کاکوئی نومولودبھی ہمارے ہاتھ نہ آیا۔اس کی وجہ ہماری بے ہنری کے علاوہ اس دن سمندرمیں غیرمعمولی حرکت تھی،پانی میں حرکت زیادہ ہوتومچھلی پکڑنامشکل ہوجاتاہے۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ ہم ماہی گیری کے لئے تاخیرسے نکلے تھے،ماہرمچھلی مارعلی الصبح فجرکے وقت نکلتے ہیں۔مجھے تونامرادخالی ہاتھ گھر لوٹنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا،سرخیوکے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ سویرے گھرمیں اعلان کرکے نکلاتھاکہ ہم مچھلیاں پکڑنے جارہے ہیں،ہماری واپسی تک ہنڈیاکامصالحہ اوردیگرلوازمات تیاررکھیے گا،آج ہمارے ہاں مچھلی ہی پکے گی۔


اس مشکل کابڑاآسان حل یوں ڈھونڈلیاگیاکہ مچھلی منڈی کارخ کیا،جوکہ عین ساحل پرہی واقع ہے۔ وہاں سے سرخیونے تین بڑی بڑی سنہری مچھلیاں خریدیں اورگھرپہنچتے ہی بیوی،بچوں کوبتایاکہ سمندرسے ابھی تازہ پکڑکرلائے ہیں۔اہل خانہ نے شک وشبہ سے بالاترہوکر،اسے ایک عظیم مچھیراقراردے دیا،اس کے قابل رشک کارناموں میں آج کی ماہی گیری بھی شامل ہوگئی۔مسئلہ تب پیداہواجب اس کے ناخلف بیٹے نے پاکستانی دوستوں کے درمیان بیٹھ کراس دن کاتذکرہ کردیاجب اس کے والدسنہری مچھلی پکڑکرلائے تھے۔”دورادو“ نسل کی مچھلی کالفظی ترجمہ یہی بنتاہے،ہمارے مقامی مچھیرے ہوسکتاہے اسے کسی اور نام سے پکارتے ہوں۔پاکستانی دوست چونکہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ کیسے مچھلی پکڑے بغیرلوٹنے کی خفت مٹانے کے لئے سرخیونے،مچھلی منڈی سے سنہری مچھلیاں خریدی تھیں اوروہی گھرلے کرگیاتھا،اس لئے انہوں نے اصل صورت حال گوش گزارکرنے کے علاوہ تمسخربھی اڑایا۔ بیٹے کوناخلف قراردینے کی وجہ البتہ دوسری ہے،جوکہ الگ مضمون کی متقاضی ہے،کہ کیسے اس نے باپ کی پچاس ملین ڈالر کی کمپنی دیوالیہ کرواکے ایک ریستوران کھولا،پھراس ریستوران کودیوالیہ کرواکے اب کسی اورکے ریستوران میں باورچی کی نوکری کررہاہے۔لوک دانش سے بھرپورضرب المثل یادآتی ہے۔
؎   پوت سپوت توکیوں دھن سوچے
پوت کپوت توکیوں دھن سوچے


اصل دولت تواولاد ہی ہوتی ہے،اسی کے لائق اورنالائق ہونے پرمنحصرہوتاہے کہ خاندان کامستقبل کیساہوگا۔ویسے زیادہ موزوں تویہاں پنجابی کی مثال محسوس ہوتی ہے کہ بیوقوف بیٹے کی پیدائش سے نابینابیٹی کی ولادت بدرجہابہترہے۔
؎   یبّل پت نہ جمےّ دھی انیّ چنگی
ساحلوں کی ریت ایک جیسی خوشبوپیداکرتی ہے مگرسیپیاں الگ الگ دیسوں میں مختلف انواع واقسام کی ہیں۔یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ساحلوں کی خوشبوسے مرادبحرالکاہل کی ساحلی خوشبو ہے۔بحراوقیانوس اوربحرہندکے ساحلوں کی خوشبوقطعی مختلف ہے۔ یوں کہنازیادہ مناسب ہے کہ ہرسمندرکی خوشبو منفرداوربے مثال ہے۔اس کے لوگوں کے مزاج اورطبیعت پراثرات بھی مختلف ہیں۔ہمالیہ کے دامن سے اٹھ کرجاپان آنے والے ایک نیپالی دوست نے اپنی آمدکاسبب یہ بیان کیاکہ بحرالکاہل کی ہواسے اس کا جسم زیادہ مضبوط اوراعصاب پراس مہاساگرکی ہوامثبت اثرات مرتب کرے گی۔ان میں نئی توانائی بھرنے کاموجب بنے گی۔مگرجلدہی ہمیں محسوس ہواکہ وہ اپنی بیگم سے جس درجہ خوف کھاتے ہیں،بحرالکاہل کی ہواکیا،سات سمندروں کی ہوا اوران کاپانی مل کربھی اس کمزوری کاعلاج نہیں کرسکتے۔جس کاوہ شکارتھے،بقول شخصے وہ کسی جسمانی کمزوری کانہیں بلکہ زن مریدی کاشکارتھے۔جوان کے نزدیک لاعلاج مرض ہے۔


طالب علموں کے لئے عرض کرتاچلوں کہ ہماری دنیاکا70فیصدحصہ سمندروں پرمشتمل ہے اورباقی تیس فیصدخشکی ہے۔ سمندروں کاذکرکریں توبحرلکاہل سب سے بڑااورپھیلا ہواسمندرہے۔اس کے بعد بحراوقیانوس اوربحرہند کانام آتاہے۔میں نے سات سمندروں کاتذکرہ محاورتاًکیاہے،چونکہ دنیامیں ان کی اصل تعداد ذرامختلف ہے۔ادب اورتاریخ کی کتابوں میں مگریہ سات شمارکیے جاتے ہیں۔نویں صدی عیسوی میں عرب مصنف یعقوبی نے لکھاہے کہ چین پہنچنے کے لئے سات سمندروں کوپارکرناپڑتاہے۔عالمی سطح پرالیعقوبی کے نام سے مشہورعرب جغرافیہ دان اورمصنف،جوبنوعباس کے عہدمیں گزرے ہیں،ان کودنیا بھرمیں عالمی ثقافت کاپہلاتاریخ دان قراردیا جاتاہے۔ویسے توکھینچ تان کر،شمالی،جنوبی تقسیم کرکے سات سمندربنادیے جاتے ہیں مگرمیرادل نہیں مانتا۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری زمین پرپائے جانے والے مجموعی پانی کا97فیصدانہی سمندروں میں موجودہے۔سمندری لہروں کی آواز مجھے توبے حدپسندہے،ایک لمحے کوتوسحرطاری کردیتی ہے۔ناقابل بیان ذہنی سکون محسوس ہوتاہے جب لہروں کوساحل کی طرف آگے بڑھتے اورپھرواپس سمندرکی طرف پلٹتے دیکھتے ہیں۔مجھے نوبل انعام یافتہ شاعر، سفارت کاراورسیاست دان پابلونرودایادآگئے،اپنی جلاوطنی کے کچھ مہینے انہوں نے اٹلی کے جزیرے کیپری میں گزارے تھے۔وطن واپسی کے بعداس نے کیپری میں اپنے دوستوں سے فرمائش کی تھی کہ جزیرے کے ساحل پرجاکرسمندرکی لہروں کوآوازریکارڈکرکے اسے بھیجی جائے،ایک ترقی پسنددوست نے کامریڈنروداکی یہ خوبصورت فرمائش بخوبی پوری کردی تھی۔ 

مزید :

رائے -کالم -