مجھے اس جہنم سے نکالا جائے

   مجھے اس جہنم سے نکالا جائے
   مجھے اس جہنم سے نکالا جائے

  


 ہماری تہذیب میں بیٹیوں کو بڑے احترام سے نوازا جاتا ہے اگر اپنی اسلامی تہذیب کی بات کیجئے تو اسلام نے خواتین کو عزتوں کی رفعتوں پر فائز کیا ہے بیوی کو گھر کی مالکہ بنا دیا۔بیٹی کو وجہ رحمت قرار دیا اور ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا خواتین سے حسن سلوک لافانی اورثانی تھا کہ نبی مکرم ﷺ کی کائنات میں تشریف آوری سے قبل خواتین کی حالت ناگفتہ بہ تھی نہ تو وراثت سے انہیں کچھ ملتا نہ ہی انہیں ایسا قابل احترام سمجھا جاتا عورت مظلوم تھی اس پر مشق ستم روا سمجھا جاتا لڑکی پیدا ہونا رنج و الم سے تعبیر کیا جاتا جس گھر میں لڑکی کی ولادت ہوتی اسے باعث شرم رکھا گیا حتی کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے کسی میدان میں لے جا کر زندہ درگور کر دیا جاتالیکن محسن انسانیت نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے کائنات میں جلوہ افروز ہوتے ہی جہاں دنیا امن کا گہوارہ بن گئی وہاں نبی مکرم ﷺ نے ایسی معاشرتی اصلاح کی کہ خواتین کا مرتبہ بلند ہوا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر عورتوں کے حقوق کی تاکید کرتے ہوئے نبی مہربان حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:غور سے سن لو، میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں (ترمذی)ہم ایک اسلامی ملک کے باسی ہیں جسے اسلام کا قلع بھی کہا گیا ہے پاکستان کا قیام اللہ رب العزت کا خاص کرم ہے پاکستان عشاق رسول ﷺ کا مسکن ہے جسکی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر ہے۔ جہاں بلا تفریق مذہب و ملت سب کو یکساں حقوق میسر ہیں پاکستان میں خواتین کے احترام اور حقوق میں کہیں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی ہے پاکستان میں آج بھی ایسی روائیت کے امیں ملتے ہیں کہ اگر ایک گاؤں کی بیٹی کسی دوسرے گاؤں بیاہی گئی ہے تو اس بیٹی کے گاؤں کا کوئی شخص اگر سفر کرتے ہوئے اُس بیٹی کے سسرا ل سے گھوڑے پر سوار گزرے  اسے معلوم ہوا کہ یہ ہماری گاؤں کی بیٹی کا سسرال ہے تو وہ فوراً گھوڑے سے اتر کر پورا گاؤں احتراماً پیدال چل کر گذرا ایسے عزت و احترام کے دیس پاکستان کی کسی بیٹی کو اگر پرائے دیس والے اٹھا کر لے جائیں تو پھر سوچئے کہ ہم رسوائیوں اور ندامتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں کس قدر گر چکے ہیں اس قوم کی ایک بیٹی کو بیس سال سے زائد کا عرصہ ہوا کہ امریکیوں کی جیل میں انکے ظلم سہہ رہی ہے۔

’ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘ پر الزام تھا کہ انہوں نے افغانستان جنگ میں امریکی فوجیوں پر قاتلانہ حملہ کیا تھا جس سے انکار کرتے ہوئے عافیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی پر گولی نہیں چلائی بلکہ وہ تو امن کی داعی ہیں تقریباً پندرہ سال قبل نیویارک کی وفاقی عدالت یو ایس کورٹ صدرن ڈسٹرکٹ میں جج رچرڈ ایم بریمین کے سامنے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل سے پیش کیا گیاتو عافیہ صدیقی عدالت کو بتاتی رہی تھی کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا وہ بے قصور  ہے اسے ناحق قید و بند میں رکھا گیا ہے اس کے پاس کوئی بندوق تھی نہ وہ امریکہ کے خلاف ہے۔ اس پر جیل میں تشدد کیاجاتا ہے اور پاؤں میں ’نعوذ باللہ‘توہین کے لئے قرآن کریم بھی رکھا گیا ہے اس پر ہر ظلم کیا جارہا ہے۔اسے اس کے بچوں سے ملایا جائے اور اس پر پانچ سال ہونے والے تشدد کا حساب بھی لیا جائے لیکن جج صاحب کی طرف سے عافیہ کو خاموش بیٹھے رہنے کے حکم پر عافیہ تلملا کررہ گئی کہ یہ کیسی عدالت کیسا ملک ہے جہاں سچائی کو خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ایک بار عافیہ نے کمرہ عدالت میں بیٹھے صحافیوں اور دیگر افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے گناہ ہیں اور یہ بات وہ باہر جا کر لوگوں کو بتائیں ڈاکٹر عافیہ کی سچائی نہ صرف اسکی باتوں سے جھلک رہی تھی بلکہ اسکا اضطراب بھی اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ عافیہ بے گناہ ہے وہ چیخ چیخ کر بھری عدالت میں اپنی بے گناہی کا کہتی ہے کہ وہ بے گناہ ہے اسے یہاں سے نکالا جائے۔یہی بات وہ آج بیس سال بعد دہرا رہی ہیں کہ وہ بے گناہ ہے انہیں اس جہنم سے نکالا جائے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عافیہ صدیقی سے امریکی ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں ’تین گھنٹے طویل ملاقات‘تو کی لیکن اپنی بے گناہ بہن کے جسم پر جتنے زخم دیکھے اتنے زخم ڈاکٹر فوزیہ اپنی روح پر لے کر وہاں سے لوٹی امریکہ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003میں افغانستان جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مطابق انہیں پاکستان سے اغواء کر کے غیر قانونی طور پر پابند سلاسل کیا گیاان بیس سالوں میں پاکستان میں کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں کئی حکمرانوں نے اقتدار ملنے سے پہلے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کو یقینی بنائیں گے لیکن حقیقت میں ایسا ہو نہ سکا کہ اقتدار کا جھولا ہی شائد ایسا ہے جو بھی لیتا ہے مست ہو کر جھومنے لگتا ہے اسے اپنے عوام کے مسائل، دکھ درد سے کچھ غرض نہیں رہتی۔ ہم نے دنیا میں ایسے ہی اپنا وقار نہیں کھویا امریکہ میں 86سال قید کی سزا کا حکم بیس سالوں تک تو آپہنچا ہے پاکستان کے پاس کئی مواقع ایسے آئے ہیں کہ اگر پاکستان کی طرف سے سنجیدہ کوششیں کی جاتی تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن بنائی جا سکتی تھی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس لئے ہماری حکومت وقت سے گذارش ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کوششوں کا عمل تیز تر کردیا جائے کہ ڈاکٹر عافیہ کی ماں اپنی معصوم اور بے گناہ بیٹی کی راہ تکتے ملک عدم رخصت ہوئیں اور پھر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں جن الزامات کی پاداش میں سزا سنائی گئی تھی۔ اُسی افغانستان سے امریکی افواج جیسے بھاگیں وہ بھی دنیا نے دیکھا ہے اور میدان سے بھاگے ہوئے لوگ سچے نہیں ہوتے اور جھوٹ کی بنیادیں بہت کمزور ہوتی ہیں اس لئے امریکہ اپنی رہی سہی ساکھ بچاتے ہوئے عافیہ صدیقی کو رہا کرے۔

مزید :

رائے -کالم -