متبادل کیا ہے؟

گذشتہ کچھ عرصے سے ملکی سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے پیپلز پارٹی حسب معمول سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے مسلم لیگ بھی اپنے سیاسی داؤ بیچ کھیلنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کو منقسم کرنے کی طرف تیزی سے کام جاری ہے اس وقت تحریک انصاف کے پاس ایک ہی متبادل حل ہے اور وہ ہے جماعت اسلامی سے ہر سطح پر سیاسی اتحاد جس کا فائدہ ناصرف تحریک انصاف کو ہو گا بلکہ اس کا بہت حد تک فائدہ جماعت اسلامی کو بھی ہو گا اب تو بس یہی فطری اتحاد ہو سکتا ہے جو ملک کو سیاسی بحران سے نکال سکتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے گزشتہ چند ماہ کے سیاسی بحران میں ناصرف مثبت رول ادا کیا بلکہ امیر جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی حکمت و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو پی ڈی ایم کی سیاست سے الگ رکھا جس کا فیصلہ جماعت اسلامی کی مجلس شوری سے باہمی مشاورت سے کیا گیا اس مشاورت میں یہاں تک بھی فیصلہ ہوا کہ جماعت اسلامی آئیندہ اتحادی سیاست سے ہمیشہ الگ تھلگ رہے گی نہ ہی کسی جوڑ توڑ میں شامل ہو گی اور نہ ہی کسی اور نام سے آئندہ الیکشن میں حصہ لے گی بہرحال اتحادی سیاست سے دور رہنا بھی جماعت کا ایک اصولی فیصلہ ہے جو امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی فہم و فراست اور جماعت اسلامی کی ذیلی قیادت میں گذشتہ اتحادی سیاست میں ناکامی کے بعد سامنے آیا کیونکہ جماعت سے آج تک جس بھی اتحادی جماعت نے جو بھی وعدے کیے وہ کبھی پورے نہیں کیے جس میں سب سے اہم فیصلہ ملک کی معیشت کو سود سے پاک کرنا اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی نظام حیات وغیرہ شامل تھا ان سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ جماعت اسلامی کا کندھا استعمال کیا اور جیت کے بعد جماعت کے ساتھ وعدہ خلافی بھی کی بہرکیف گزشتہ تجربات کی روشنی میں جماعت اسلامی نے جماعتی سطح پر مشاورت کے بعد ملکی سیاست میں اپنے اصولوں پر مستقبل میں کوئی سمجھوتا نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے جو کہ شاید جماعت اسلامی کو مرکزی لیول پر کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں حکمت عملی اور فیصلوں کو ملکی و پارٹی مفاد ات میں مثبت سوچ کے ساتھ تبدیل کرنا بھی عین ممکن ہے، کراچی کی سیاسی صورتحال کی طرح مرکزی طور پر بھی فیصلے ہو سکتے ہیں دراصل جماعت اسلامی پاکستان کی وہ جماعت ہے کہ جس کی قیادت سے لے کر کارکنان تک ایمانداری، خلوص، مخلصی اور صداقت کا پیکر ہیں اسلام پسند بھی ہیں پاکستان کے خیر خواہ بھی، ان کی اپنی پارٹی میں موجود جمہوریت پاکستان میں بھی جمہورت کو فروغ دینے میں مدد دے سکتی ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی سیاسی جماعتیں پاکستان سے مخلص نہیں مگر حق بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی بات ہی الگ ہے کیونکہ جماعت نے پاکستان کو گذشتہ ستر سالہ تاریخ میں کبھی کسی موڑ پر بھی تنہا نہیں چھوڑا انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور اسلام کی حاکمیت کے لیے ان تھک محنت کی یہاں تک کہ ان کو بہت سے القابات سے نوازا گیا کسی نے پرانے زمانے کے لوگ کہا تو کسی نے دقیا نوسی خیالات رکھنے والی جماعت کہا تو کسی نے بی ٹیم کا خطاب دیا مگر جماعت اسلامی کی قیادت نے کبھی ہار نہیں مانی ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ہو یا مسلہ کشمیر مسلہ فلسطین ہو یا مسلہ افغانستان ایران عراق جنگ ہو یا ترکیہ پاکستان کے تعلقات، ہر حال میں جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنا بہترین کردار ادا کیا حتیٰ کہ امام خیمینی بھی ایرانی انقلاب کے بعد مولانا مودودی سے تنظیم سازی، تربیت سازی اور اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مشاورت میں رہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی بہت سی تقاریر میں کیا اس وقت کہ جب عوام پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی سے خفا نظر آتے ہیں میرے خیال میں اس خلا کو جماعت اسلامی احسن طریقے سے پر کر سکتی ہے اب ان الیکشنز میں عوام کو جماعت اسلامی کو موقع دینا چاہئیے اور اگر جماعت اور تحریک انصاف مل کر الیکشن میں اترتی ہیں تو پھر تو یہ عوام کے لئے امید کی بہترین کرن بھی ثابت ہو سکتی ہے درحقیقت تحریک انصاف کے پاس کھوٹے سکوں کا ابھی تک ایک ہجوم موجودہے تو دوسری طرف جماعت اسلامی کے پاس مخلص افراد کا جم غفیر ہے دونوں ایک دوسرے کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اس اتحاد سے ہو سکتا ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام بھی نصیب ہو جائے اور جماعت کی زیرک قیادت تحریک انصاف کے لوگوں کی تربیت کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے اور ان کو یہ سمجھائیں کہ مخلصی و بہادری کس شے کو کہتے ہیں یہ بھی کہ ملک کا ہر ادارہ مقدم ہے ان کے ساتھ حکمت و تدبر، فہم فراست سے چلنے میں ہی ملک و قوم کی بھلائی ہے اشفاق احمد مرحوم نے کہا تھا کہ پاکستان کی ترقی میں صرف دو چیزیں حائل ہیں پہلی شے ہے تکبر، جس دن اس تکبر کے بت کو ہم سب توڑنے میں کامیاب ہو گئے یقین جانیے پاکستان گل و گلزار ہو جائے گا ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہو گی ہر طرف پھول ہی پھول کھل اْٹھیں گے کیونکہ جس دن ہم اپنی ذات کے خول سے نکل کر ملک کا سوچیں گیاْس دن ہم اصل میں پاکستان کا حق ادا کر سکیں گے پھر انہوں نے فرمایا کہ دوسری شے ہے تربیت کی کمی جو شاید ہماری سرشت میں شامل ہے ہمیں سائنس و ٹکنالوجی میں تربیت کی اسقدر ضرورت نہیں جس قدر ہمیں اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے ہم نہ تو زیردستی عزت لے سکتے ہیں نہ ہی زبردستی زندگی حاصل کر سکتے ہیں نہ ہی موت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی رزق اپنی قسمت میں لکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ چاروں چیزیں خدا نے اپنے اختیار میں رکھی ہیں ان سب کا مالک خدا واحد ہیہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب پہلے ملک کا سوچیں پھر ملکی سیاست کو مثبت راستے کی طرف گامزن کریں۔