اچھی خبروں کی امید مگر کب تک؟

 اچھی خبروں کی امید مگر کب تک؟
 اچھی خبروں کی امید مگر کب تک؟

  


 وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ خوبی ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو اچھی خبروں کی امید ضرور دلاتے ہیں اب انہوں نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں، امید ہے اسی ماہ معاہدہ ہو جائے گا۔ ویسے تو اس بارے میں خوشخبریاں جب سے یہ حکومت آئی ہے سنائی جا رہی ہیں مگر یہ آئی ایم ایف والے بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کسی کی امیدیں پوری کرنے کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ وزیر اعظم نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ہم نے پلان بی کے تحت کمر کس لی ہے، کمر کس لینا ایک محاورہ ہے اب نجانے اس سے مراد کیا ہے؟ کیا عوام پر ستم ڈھانے کے لئے کمر کس لی ہے یا پھر عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کمر کسنے کا عزم کیا ہے۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہے اگلا سال خوشحالی کا ہوگا کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک، اگلے سال نجانے کس کی حکومت ہو اور وہ اپنے نئے وعدے اور نئے لارے لگا کے عوام کو خوش کر رہا ہو یہ حکومتی سیٹ اپ تو آئینی مدت کی تکمیل کے بعد تین ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ فی الوقت کسی کو خبر نہیں حکومت نے جو کرنا ہے اپنی اسی مدت میں کرنا ہے، کہا جا رہا ہے اس سال کا بجٹ بہت سخت ہوگا اور عوام کے سارے کس بل نکال دے گا۔ شاید کمر کسنے کی بات وزیر اعظم نے اسی پس منظر میں کی ہے اللہ خیر کرے اور غریبوں کو مزید مشق ِستم سے بچائے جن کی پہلے ہی حالت مہنگائی نے دگرگوں کر رکھی ہے اور انہیں زندہ رہنے کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔


حقیقت یہ ہے عوام عرصہ ہوا کسی اچھی خبر کے لئے ترس گئے ہیں۔ ہر طرف سے انہیں بری خبریں ہی سننے کو ملتی ہیں اب تو حکومتی اتحادی بھی بول پڑے ہیں کہ عوام پر کچھ رحم کھایا جائے، گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے عوام پر ایک اور ستم ڈھا دیا ہے۔ ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی بھی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دیدی ہے۔ یہ منظوریاں کس بنیاد پر دی جاتی ہیں، کیا حکومتی زعماء کو اس بات کی خبر نہیں کہ عوام روٹی دال کے لئے محتاج ہو چکے ہیں، مہنگے علاج معالجے کے لئے پیسہ کہاں سے لائیں گے جب اقتصادی حالات خراب ہوتے ہیں تو سب کو ان کا نتیجہ بھگتنا چاہئے جو ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں وہ اپنا منافع کسی صورت کم نہیں کرنا چاہتیں اس لئے حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوا لیتی ہیں۔ وزیر اعظم کو سوچنا چاہئے کہ جن کا ایک ایک دن مشکل میں گزر رہا ہو وہ اچھے دنوں کی صرف امید پر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو پلان بی کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ جو خوشحال طبقے ہیں، ہر آسائش سے اس ملک کی بدولت بہرہ مند ہو رہے ہیں، ان پر بوجھ ڈالا جائے کچھ حصہ تو انہیں بھی اس بوجھ اٹھانے میں ڈالنا چاہئے، یہ کیا کہ ہر وقت قربانی عوام ہی سے مانگی جائے اور ان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ اور بجلی و گیس جیسی سہولتوں کی قیمتوں پر مزید اضافہ کر کے اپنا کام چلایا جائے۔ کیا اس انداز سے کام چل سکتا ہے؟


آج تک یہ عقدہ بھی حل نہیں ہو سکا کہ جب آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں تو پھر معاہدہ کیوں نہیں ہو پا رہا۔ کوئی تو ایسی وجہ ہے جس کے باعث یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں سنا ہے سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کو چبھ رہا ہے وہ ایک ایسی حکومت سے معاہدہ کرنے کو تیار نہیں جو چند ماہ کی مہمان ہے۔ اس سے پہلے خود حکومتی شخصیات یہ کہتی رہی ہیں کہ عمران خان نے اپنی سیاست سے ملک میں جو عدم استحکام اور بے یقینی پیدا کر رکھی ہے اس کی وجہ سے آئی ایم ایف معاہدہ نہیں کر رہا۔ ایسا پہلی بار ہور ہا ہے کہ کسی اپوزیشن کی وجہ سے آئی ایم ایف معاہدہ کرنے سے انکاری ہو۔ تاہم کسی موقع پر بھی آئی ایم ایف نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام آنا چاہئے، جبکہ ملک کی اندرونی حالت یہ ہے کہ ملک میں اگر کوئی استحکام آ بھی سکتا تھا تو وہ 9 مئی کے بعد اس کا امکان بھی باقی نہیں رہا اس سے پہلے اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی اور حکومت میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ماحول ساز گار ہوتا نظر آ رہا تھا، سپریم کورٹ کے حکم سے انتخابات کی تاریخ کا تعین کیا جا رہا تھا، بات شاید کسی کنارے لگ جاتی، پھر اچانک سب کچھ اتھل پتھل ہو گیا۔ آج یہ حال ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں تحریک انصاف کا ہاتھ نہیں تھا۔ انہوں نے عمران خان کے اس پروپیگنڈے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے اور ان سے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ ان کی اس بات کو مان لیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کے ذہن میں آخر مستقبل کا روڈ میپ کیا ہے۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، اسی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ایک بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی بحران کو حل کرنے کی پیشگی تدبیر بھی کی جا رہی ہے یا نہیں عوام اس وقت اور کچھ بھی نہیں مانگ رہے، سوائے معاشی ریلیف کے، معاشی ریلیف مل جائے تو شاید عوام سکھ کا سانس لیں مگر اس کے امکانات تو دور دور تک نظر نہیں آ رہے حکومت اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی اور ہر بات کا جواب یہی ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ جلد ہو جائے گا، پچھلے 14 ماہ کے عرصے میں عوام یہی گردان سن رہے ہیں نہ معاہدہ ہوا ہے اور نہ ہی مہنگائی کی تیز رفتاری میں کمی آئی ہے۔ اب نجانے 22 روز بعد پیش کیا جانے والا بجٹ عوام کے لئے کیا لاتا ہے، ان میں دن میں مزید تارے دکھاتا ہے یا پھر ان کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، جو حالات ہیں ان کے پیش نظر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو ہر قسم کی صورتِ حال کے لئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ اس حکومت کے ہوتے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -