سانحہ نو مئی، اب تک مذمت اور تحریک انصاف چھوڑنے کا سلسلہ جاری، عدالتوں سے ریلیف بھی مل رہی!
نو مئی کو پیش آنے والے افسوسناک واقعات کا تفتیشی عمل جاری ہے اور زیر حراست افراد کو عدالتوں سے ریلیف ملنے کا سلسلہ بھی رک نہیں سکا جن رہنماؤں کو عدالتوں سے ریلیف ملا ان میں تحریک انصاف کی صوبائی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق وزیرعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بھی شامل ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی رشوت ستانی کے ایک مقدمے سے لاہور کی عدالت سے بری ہوئے، ان کو پھر گرفتار کرکے گوجرانوالہ لے جایا گیا جہاں ان کے خلاف دو مقدمات میں گرفتاری بتائی گئی، گوجرانوالہ کی عدالت نے بھی دونوں مقدمات میں بری کر دیا لیکن ان کی رہائی پھر بھی نہ ہو سکی اور ان کو پنجاب اسمبلی میں بھرتیوں کے کیس میں گرفتار کرلیا گیا، اس کیس میں ان کو پیش کیا گیا تو محکمہ انسداد رشوت ستانی نے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ یہ سماعت کوئی دوسری عدالت کرے مگر یہ اعتراض قبول نہ کیا گیا، تاہم عدالت نے محکمہ کی وہ درخواست مسترد کر دی جس کے ذریعے چودہ روز جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی اور چودھری صاحب کو چودہ روز کے لئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ دوسرے کیس میں ڈاکٹر یاسمین راشد کے جناح ہاؤس گھیراؤ جلاؤ میں ملوث ہونے کے الزام کو رد کر دیا گیا اور عدالت نے ان کو بری کر دیا۔
تحریک انصاف کے مرکزی صدر چودھری پرویز الٰہی نے اپنی پیشیوں کے دوران میڈیا کی موجودگی کا فائدہ اٹھایااور اعلان کیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑے ہیں اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاک فوج کے حوالے سے کہا کہ وہ تو ابتداء ہی سے فوج کے ساتھ ہیں انہوں نے انصافی کارکنوں کو بھی حوصلہ برقرار رکھنے کو کہا، ادھر اتحادی حکومت کے وزراء اور محکمہ انسداد رشوت ستانی نے عدالتی فیصلوں کو ناقص قرار دیا اور کہا کہ ان فیصلوں کو چیلنج کیا جائے گا اور اپیلیں دائر ہوں گی عدالتوں فیصلوں کے بعد ان کے پاس یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اپیلیں کریں تاہم غور کرنے کی یہ بات ہے کہ کہیں کیسوں کی تفتیش او ر پیروی ہی غلط نہیں اور ٹھوس ثبوت پیش نہ کئے گئے ہوں، یہ سارا سلسلہ جاری ہے۔
+
اس اثناء میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے اپنے افسروں کے ساتھ دوبار پریس کانفرنس کی، تحریک انصاف کے سربراہ اور سوشل میڈیا کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیا سنگین الزام کی نوعیت زیر حراست خواتین کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی تھی اس سلسلے میں پولیس کی طرف سے ڈپٹی کمشنر لاہور اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن کو تحقیق کے لئے جیل بھیجا گیا۔ دونوں خواتین ہیں اور انہوں نے اسیر خواتین سے مل کر اور جیل حکام سے سوالات کرکے حالات کا جائزہ لیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین نے ایسی شکائتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ بعدازاں جب ان خواتین کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے خود بھی میڈیا کو بتایا کہ ان کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں ہوئی لیکن جیل میں اسیر ہونا بذات خود تکلیف دہ ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس نے نہ صرف تمام الزامات کو رد کیا بلکہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا بھی جواب دیا اور بتایا کہ جو لوگ حراست میں لئے گئے ان کے خلاف شواہد ہیں اور دوران تفتیش وہ لوگ رہا کر دیئے گئے جو ملوث نہ پائے گئے۔ تحقیق و تفتیش کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ سب جدید تر ٹیکنالوجی سے جاری ہے اور فون کی لوکیشن اور جیوفیننگ کے ساتھ ساتھ واردات کی فوٹیج سے شناخت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بے گناہ کو زیادہ دیر حراست میں نہیں رکھا جائے گا۔
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی جناح ہاؤس کو عوام کے لئے کھلا رکھا گیا ہے اور روزانہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے وفود جاتے رہتے ہیں، ان کی طرف سے واردات کی مذمت کی جاتی ہے۔ سابق فوجی اعلیٰ افسروں اور شہداء کے اہل خانہ نے بھی جناح ہاؤس کا دورہ کیا اور واردات پر دکھ کا اظہار کرتے ہی اس کی بھرپور مذمت کی اور ذمہ دار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیاانہی حالات میں سیاست کا بھی رخ تبدیل ہوا اور تحریک انصاف کے پنجرے سے رہائی حاصل کرنے والے پرندوں کو پکڑنے اور رام کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جہانگیر ترین نے علیم خان کے ساتھ مل کر نئی جماعت کی تشکیل پر کام شروع کر دیا جبکہ الیکٹ ایبلز بڑی تعداد ان کے ساتھ مل گئی ہفتہ عشرہ میں ان کی طرف سے نئی جماعت کا اعلان کرکے رجسٹریشن کی کوشش ہوگی۔ ایک اور مرحلہ یہ بھی آیا کہ سابق صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے تحریک انصاف کے سابق منتخب اراکین پر مشتمل ایک گروپ بنا لیا اور اعلان کیا کہ اس گروپ میں 35اراکین ہیں، ان کاکہنا تھا کہ ان سب نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی تاہم کسی اور جماعت میں جانے سے گریز کیا اور ”ڈیموکریٹک“ گروپ کے نام سے اپنا دھڑا بنا لیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری سرور بھی متحرک ہیں، آصف علی زردری نے تو لاہور میں تین چار روز قیام کیا اور اس مرحلہ میں جنوبی اور وسطی لاہور سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں نے پیپلزپارٹی میں شرکت کی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کادعویٰ ہے کہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی بہت اہم ہو کر سامنے آئے گی اور بلاول کو وزیراعظم بنایاجائے گا۔انہوں نے تنظیمی عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ اسی ماہ کے آخری عشرے کے شروع میں لاہور میں جلسہ عام کا اہتمام کریں۔ چنانچہ لاہور کے صدر چودھری اسلم گل اور ان کے ساتھ دیگر رہنماؤں نے لاہور میں لبرٹی چوک کے علاوہ ناصر باغ اور باغ بیرون موچی دروازہ کا بھی جائزہ لیا گیا، لاہور کے صدر چودھری اسلم گل خود پرانے جیالے ہیں تاہم جیالوں کا اصرار ہے کہ سلسلہ باغ بیرون موچی دروازہ سے کیا جائے جو تحریک پاکستان کا مرکز اور لاہور کا بھی دل ہے تاہم باور کیا جاتا ہے کہ انتخاب شاید لبرٹی چوک کا ہو جو تحریک انصاف نے نیا وینویو بنا دیاہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور قائدین بھی متحرک ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کارکردگی کو ملاحظہ کیا جائے اتحادی حکومت اور انصاف والے بھی ناکام ہو چکے ہیں اور اب جماعت اسلامی کے سوا کوئی اور جماعت ملکی حالات نہیں سنبھال سکتی۔