نیا زمانہ، نئے کرتب

نیا زمانہ، نئے کرتب
نیا زمانہ، نئے کرتب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی تعداد دو سو سے بڑھ گئی ہے۔ بھاری بھرکم رہنما بھاری تعداد میں بھاگ رہے ہیں۔ کچھ کہنہ مشق اور چند کمزور دل حضرات روپوش ہیں۔ کچھ پرانے پاپی پینترے اور پارٹی بدل کر کمال ڈھٹائی سے سیاسی منظر نامہ کا بوجھ بن کر موجود ہیں۔ اس تمام منظر کی دو لفظوں میں تصویر کشی کرنا ہو تو لکھ دیں، فواد چوہدری۔ سب کہانی واضح ہو جائے گا۔ جھپٹ کر پلٹنا، پلٹ کر بھاگنا، بھاگ کر لیٹنا، لیٹ کر اٹھنا، اٹھ کر مکرنا۔ دو چار دنوں کے اندر ایسے کرتب کرنا کسی عام اور صاحبِ کردار آدمی کے بس سے باہر ہے۔  کون لوگ او تسی!
9 مئی کے بعد پی ٹی آئی جتنی سرعت اور شدت سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے اسکی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مشکل ہی ملتی ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ اس سے قبل سیاسی پارٹیاں دباؤ میں آئیں تو انکے تمام رہنما جرات رندانہ سے کھڑے رہے۔ سینہ سپر رہے۔ تمام پارٹیوں کے اپنے اپنے فواد چوہدری موجود تھے جنہوں نے خطرہ دیکھ کر ٹانگوں میں دم دبا لی اور بھاگ لئیے۔ 


12 اکتوبر1999ء کی پرویزی بغاوت کی رات نواز شریف نے پستول کی نوک پر اسمبلی تحلیل کرنے کے پروانے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجے میں انہیں، انکے اہلِ خانہ اور رفقا کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ملک بدری بھی ہوئی۔ بہت سے ساتھی ڈٹے رہے۔ 
مگر کچھ اسی رات ہی ایمان لے آئے اور پاکستان مسلم لیگ سے توبہ تائب ہو گئے۔ دو تین مثالوں سے اسے واضح کرتا ہوں۔ محفوظ پورہ میں تعینات فوجی افسر نے بتلایا کہ نواز شریف کے بہت قریبی ساتھی ا ر جب حراست میں وہاں پہنچے تو انہوں نے موقع پر موجود میجر سیف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پراعتماد آواز میں کچھ سفید کاغذوں اور قلم کی استدعا کی جو افسرانِ بالا سے منظوری کے بعد مان لی گئی۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ انکے لبوں پہ پھیل گئی۔ عجلت سے قلم اٹھایا اور خالی کاغذوں پر اپنے دستخط ثبت کئے اور میجر صاحب کو واپس کرتے ہوئے حوصلہ مندی سے بتلایا کہ ان دستخط شدہ کاغذوں پہ جو چاہے وہ لکھ لیں انہیں منظور ہو گا۔ ساتھ ہی استدعا کی کہ انہیں راتوں رات واپس گھر جانے دیا جائے۔ اب میجر صاحب کی فاتحانہ مسکراہٹ کی باری تھی۔ درخواست حکامِ بالا کو بھجوائی گئی۔ ظاہر ہے استدعا رد نہیں کی جا سکتی تھی۔ آخر اپنے گھر واپس جانے کا ہی کہہ رہے تھے۔ انہوں نے ایسی گھر کی راہ لی کہ2018ء تک دوبارہ نظر نہ آئے۔ 


اسی کمپاؤنڈ کے ایک کمرے میں خواجہ ر م کو بھی بند کیا گیا۔ ابھی جمہوریت پر پرویزی حملہ ہوئے چند گھنٹے ہی گزرے تھے۔ زیرِ حراست خواجہ صاحب کی یکایک طبیعت میں کچھ خرابی ہوئی۔ مجبورا باہر نکالا گیا تاکہ کھلی ہوا لگے۔ اس دوران ڈیوٹی پر موجود نوجوان افسر نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آپکی تو نواز شریف صاحب سے بہت قربت ہے۔ وہ بولے نہیں نہیں میں تو ان سے دور ہی رہنا پسند کرتا تھا۔ افسر نے کہا میں نے تو کچھ روز قبل اخبار میں آپکی تصویر دیکھی تھی آپ میاں صاحب کے قریب بیٹھے انکے کان میں کچھ بات کر رہے تھے۔ خواجہ صاحب توقف کے بعد بولے،“میں انہاں نوں سمجا ای ریا سی، ”(می انہیں سمجھا ہی رہا تھا)  ظاہر ہے اسی رات کپڑے بدلنے سے پہلے وفاداری بدل لی۔ 
ش ع نے حراست میں چند روز بعد ہی ایک رات دھاڑیں مارنی شروع کر دیں۔ گارڈ ڈیوٹی پہ موجود فوجی کچھ محظوظ ہوئے کچھ پریشان ہو گئے۔ افسران پہنچ گئے۔ ش ع کی بلند دھاڑیں جاری رہیں اور ایک اپیل خدا سے کرتے تھے یا اللہ اج ای مینوں ایتھوں کڈ۔ اور ساتھ ہی افسران کو مخاطب کر کے کہتے کہ میں ہن سیاست ای چھڈ دینی اے۔ وعدے کے پکے تھے، رہائی کے بعد سیاست چھوڑ دی۔ 


ایسے اور بھی کئی کردار تھے جو وزن نہ اٹھا سکے اور راستے جدا کر لئیے۔ بلکہ نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈال دی گئی جو آج بھی سیاست کا حصہ ہے۔ لوگ اسے پاکستان مسلم لیگ ق کے نام سے جانتے ہیں۔ 
مگر12 اکتوبر اور9 مئی میں فرق ہے۔ تب مارشل لا لگا تھا، اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ نواز شریف وزیرِ اعظم تھے۔ آئین و قانون معطل کر دیا گیا لہٰذا کسی کی جان اور آزادی محفوظ نہ تھے۔ بغیر کسی پولیس کیس کے سینکڑوں لوگ نامعلوم مقامات پہ مقید تھے۔ ایسے میں دباؤ برداشت کرنا پامردی تھی۔ 


9 مئی سیاست کی آڑ میں سراسر بدمعاشی تھی جس میں اپوزیشن رہنما عمران خان کی پارٹی نے منصوبے کے تحت عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔ردِ عمل آیا، قانون حرکت میں آیا تو سب جعلی انقلابی ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ کچھ کو واقعی احساس ہوا کہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا گیا ہے تو انہوں نے راہیں جدا کر لیں۔ عمران خان نے اقتدار میں واپسی کے لئیے تمام حدیں پار کر دیں۔ غلط فہمی میں غلط حریف چن لیا۔ اب اپنی انا اور حماقت کا شکار ہو کر پاکستان کی سیاست میں عبرت بننے جا رہا ہے۔ دو سو سے زائد رہنماؤں کو ادراک ہو گیا ہے کہ اسکا حشر الطاف حسین سے بھی برا ہو گا۔ 

مزید :

رائے -کالم -