اکثر بہک جاتا ہوں میں، منہ آئی بک جاتا ہوں میں۔۔۔اف سامعین! ہمیں معاف فرمائیے۔ ہم نادم ہیں(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

آخری قسط
مزدور، ”جناب سینے میں نہیں گدگدیاں تو پیٹ میں ہوا کرتی ہیں!“
پنڈت جی، ”اف ان گدگدیوں کا ذکر کون مسخرہ کر رہا ہے؟ میں دل کی گدگدیوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ وارداتِ قلب کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے بھولے بھالے کامریڈ تم ضرور انقلاب چاہتے ہوگے۔ ہم خود انقلاب چاہتے تھے، چاہتے رہے ہیں۔۔۔ چاہتے ہیں، چاہیں گے اور چاہتے رہا کریں گے۔ اور اس انقلاب میں ہم تمہیں لڑائیں گے۔۔۔ آہ! مزدور لڑیں گے۔ دل سہم جائیں گے۔ اناؤنسر صاحب ذرا ایک گلاس پانی منگا دیجیے۔۔۔ ہاں انقلاب چاہتے ہونا۔ سچ سچ بتاؤ۔“
مزدور، ”نہیں جناب میں بے قصور ہوں، بالکل بے گناہ ہوں۔ میں نے کبھی ایسی خطرناک باتیں نہیں سوچیں۔ مجھے معاف کردیجیے!“
پنڈت جی، ”پھر وہی بھولپن دکھا رہے ہو میرے جگری دوست۔ میں تمہارے راز سے واقف ہوں۔ سمجھ لو کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
مزدور، (گھبرا کر) ”صاحب آپ میری تلاشی لے لیجیے۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا!“
پنڈت جی، ”مجھے ہنسنے کی اجازت دو۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ ہوہو ہو۔۔۔ کامریڈ۔۔۔ کس قدر سادہ لوح ہو تم۔۔۔ اور جب وہ انقلاب آجائے گا تو پھر ہماری مشکلات حل ہوجائیں گی۔ موجودہ کساد بازاری دفع ہوجائے گی۔ مسرت و شادمانی کی لہر ملک کے گوشے گوشے میں دوڑ جائے گی۔ یا تو سب باشندے غریب ہی ہوں گے یا سب کے سب امیر ہوں گے اور یا یہاں باشندے ہوں گے ہی نہیں!“
اناؤنسر، ”یہ لیجیے پانی کا گلاس۔ پنڈت جی گستاخی معاف، یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟“
پنڈت جی، ”اوہ۔۔۔! وہ شعر سنے ہیں آپ نے؟
اکثر بہک جاتا ہوں میں
منہ آئی بک جاتا ہوں میں
ایسا شرابی ہوگیا
عقل وخرد کو کھوگیا
مجھ کو زمانے سے غرض
پینے پلانے سے غرض
آہ۔۔۔! یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟“
اناؤنسر، ”اف! پنڈت جی خدا کے لیے بے ہوش مت ہوئیے!“
پنڈت جی، ”آئے ہائے! اناؤنسر صاحب رہا نہیں جاتا۔ کیا کروں؟“
اناؤنسر، ”صبر سے کام لیجیے۔ خدا کے لیے پنڈت جی!“
(دھڑام سے کوئی گرتا ہے )
اناؤنسر، ”سنا آپ نے؟ پنڈت چڑی لڑاوا صاحب کیا تو ابھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور کیا بے ہوش ہوگئے ہیں۔۔۔ زندگی کا کیا اعتبار ہے۔ ہمیں ایک شعر یاد آیا ہے، لیکن غالباً یہ شعر سنانے کا موقع نہیں، اس لیے رہنے دیتے ہیں۔ ابھی ایک ڈاکٹر بلایا ہے۔ خاطر جمع رکھیے، پنڈت جی کو ایسے دورے اکثر پڑا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو ملک کے صدمے سہہ سہہ کر دل بالکل چھوٹا سا رہ گیا ہے۔ بعض اوقات تو ہمیں شبہہ ہوتا ہے کہ پنڈت جی کا دل سوچ بچار میں گھس گھس کر غائب ہوچکا ہے۔۔۔ لو بھئی مزدور، تم اپنی تقریر شروع کردو۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔ اس طرف۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ شرماؤ نہیں۔۔۔ اپنی زندگی کی ناکامیوں پر روشنی ڈالو۔۔۔!“
مزدور، ”جناب! میں ایک تندرست آدمی ہوں۔ صبح کو ورزش کرتا ہوں اور شام کو بھی۔ اور اچھی خاصی غذا کھاتا ہوں پھر جی بھر کر سوتا ہوں۔ اکھاڑے میں بھی جاتا ہوں اور اچھے اچھے پٹھوں کو پچھاڑ لیتا ہوں۔ پانچ چھ گھنٹے مزدوری کرتا ہوں۔ دن بھر کے لیے کافی مل جاتا ہے، بلکہ کچھ بچ ہی جاتا ہے۔ یہ عجیب سے لوگ مجھے بلا کر یہاں لے آئے ہیں اور عجیب عجیب باتیں پوچھ رہے ہیں۔ میں ناشکرا نہیں، نہ میں کسی امیرکی پرواہ کرتا ہوں نہ نمبردار کی۔ نہ میں کسی کو برا بھلا کہتا ہوں۔ میر ی صحت ایسی ہے کہ جتنے آدمی یہاں بیٹھے ہیں ان سب کو گرا سکتا ہوں۔ مجھے بولنے دیجیے۔ یہ دیکھیے ان لوگوں نے دھینگا مشتی شروع کر دی ہے۔ ارے۔ ذرا۔۔۔!“
اناؤنسر، ”اف سامعین! ہمیں معاف فرمائیے۔ ہم نادم ہیں۔ اس مزدور نے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ پروگرام بالکل خراب ہو گیا۔ حضرت نقشین مرادآبادی نے سوال کام کے نہیں کیے۔ آوارہ گرد صاحب چڑ گئے، پنڈت جی بے ہوش ہوگئے اور یہ مزدور کشتی لڑنے کو تیار ہے۔ ہم شرمندہ ہیں۔۔۔ اچھا۔۔۔ اب ہم قبل از وقت یہ فیچر ختم کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس کی تلافی عنقریب کر دی جائے گی جب ہم بقیہ مشورے پیش کریں گے۔ ان کے عنوانات ملاحظہ ہوں،
ایک قدرتی نظارہ
پنگھٹ
ایک اوپریشن
ایک خفیہ جلسہ
اور ایک آدھ صحیح قسم کا انٹرویو بھی کرادیں گے۔ اچھا آداب عرض!“
"شگوفے " سے اقتباس