مرول ٹاپ سے دور پہاڑ کی چوٹی پر سفید پتھروں کی لکیر دراصل لائن آف کنٹرول ہے،اسی کے دامن سے بہتا میں پاکستان میں داخل ہوا ہوں

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:39
”مرول ٹاپ سے وہ دور پہاڑ کی چوٹی پر جو سفید پتھروں کی لکیر دکھائی دے رہی ہے دراصل لائن آف کنٹرول ہے۔اسی لائن آف کنٹرول کے دامن سے بہتا میں پاکستان میں داخل ہوا ہوں۔ دونوں سرحدوں پر مجھے کوئی فوجی نظر نہیں آیا البتہ ان اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر دونوں دشمن افواج کے بنکرز ان کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔یہ آپس میں کم اور موسم اور پہاڑوں کی سختیوں سے زیادہ نبر آزما رہتے ہیں۔ دور جدید میں توپوں اور اسلحہ سے دور تک دشمن کے علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی اسلحہ ان بنکروں میں بھی ہے۔یہاں موجود جوان اپنی گنوں کا منہ ایک دوسرے کی طرف کئے مرنے مر جانے کو تیار ہیں۔ قریب ہی مجھے ایک بنکر دکھائی دیا جس کے سوراخ سے پاکستانی مشین گن کا منہ بھارتی چوکی کی جانب ہے۔ باس، مشتاق اور لاہور سے میرا سرکاری ڈرائیور اشرف جیپ سمیت پہنچے ہوئے ہیں۔ میرے پھوپھی زاد بھائی قیس مظہر حسین بھی ساتھ ہیں کہ انہیں میرے ساتھ ان علاقوں میں گھومنے کا بہت اشتیاق ہے۔ اکیاسی (81)سالہ بھائی جان پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ فائٹر ہوا باز ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔2 بھارتی جہاز گرائے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 65ء کی جنگ کے پہلے اور آخری مشن میں حصہ لیا۔ پہلے مشن میں وہ اپنے سکوارڈن کمانڈر ”اسکورڈرن لیڈر علاؤالدین احمد المعروف بچ شہید“ کے نمبر دو تھے جبکہ آخری مشن میں وہ سولو پرواز پر تھے۔ پاکستا ن کو ملنے والے چینی ساخت کا ایف 6 جہاز چین سے لانے والے پائیلٹس میں بھی وہ شامل تھے۔ انہوں نے امریکہ سے اعزاز کے ساتھ فائیٹر پائیلٹ کی ٹریننگ مکمل کی اور تمام گروپ میں اؤل نمبر پر رہے۔ جنگ کے بعد ایک کار حادثے میں انہیں ایئر فورس چھوڑنی پڑی تھی۔ ہنس مکھ، زندہ دل، اعلیٰ پائے کے شیف، بہادر، نیک دل اورکمال یار دوست انسان ہیں۔ باتوں کے فلسفی۔عمدہ لکھاری، ٹینس اور اسکوائش کے اعلیٰ درجے کے کھلاڑی رہے اور کبھی سلطان ایف حسین مرحوم کی ایڈیٹر شپ میں شائع ہونے والے کھیلوں کے معروف میگزین”سپورٹس ٹائم“ کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ سلطان ایف حسین کرکٹ کھیلنے کے زمانے میں میرے کوچ بھی رہے۔ ان جیسا کمال انسان میں نے زندگی میں کم ہی دیکھا ہے۔ ایک اور دوست اور ہمارے میزبان محکمہ بلدیات بلتستان میں بطور سیکرٹری یونین کونسل فرائض انجام دینے والے45 سالہ قاچو غلام محمد بھی موجود ہیں۔ سادہ، دھیما مزاج، ہنس مکھ، مہمان نواز۔ اپنے علاقے کے رسم ورواج اور معلومات سے اُسے اچھی واقفیت ہے۔ اس کا تعلق کھرمنگ کے شاہی خاندان سے ہے اسی لئے نام کے ساتھ ”قاچو“ کا لفظ استعمال کرتا ہے جو یہاں صرف شاہی خاندان کے افراد کے لئے ہی مخصوص ہے۔ اس کا برادر نسبتی محمد علی بھی محکمہ بلدیات بلتستان کا ملازم اور آج کل اُس کی تعیناتی بطور اسٹنٹ سکردو میں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ محمد علی سے ملاقات سکردو میں ہو گی۔ نین بھی سکردو میں ملے گی۔ہم سب(غلام محمد اور محمد علی کے علاوہ) سندھو کے ڈیلٹا تک جائیں گے، مختلف مراحل میں۔ میں سندھوکا جنم اور چڑھتی جوانی اور ا ٹھتا جوش یہاں تک دیکھ آیاہوں۔یہاں تک کے سفر میں یہ خوب شور مچاتا، اپنا سر چٹانوں سے پٹختا، پہاڑوں کی خاموشی کو ٹوڑتازندگی کی نوید دیتا ہے۔
اولڈنگ سے تقریباً 4 کلو میٹر ڈاؤن سٹریم،میں پہاڑ کی ایک اونچی چٹان پر کھڑا ”مرول ٹاپ“ کے اس درے پر نظر لگائے ہوں جہاں میرے سامنے 18 ہزار فٹ بلند پہاڑوں کے درمیان سے سندھو پاکستان میں داخل ہوا ہے۔ یہ شاندار نظارہ ہے۔ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑ سنہری دھوپ میں چمک رہے ہیں سندھو کا آدھا پانی سنہرا اور آدھا پہاڑوں کے سائے کی وجہ سے کالا دکھا ئی دے رہا ہے۔ یہ کالا نظر آنے والا پانی دراصل دریائے شنگو کا ہے جو کھرمنگ سے سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا اس مقام پر سندھو میں ملتا ہے۔ میرے پاس کھڑے قاچو غلام محمد نے بتایا؛”سر! مرول ٹاپ سے ذرا اوپر ”وانکو“(ژثیرے تھنگ بلتی نام“)نامی گاؤں ہے اور گاؤں سے کچھ نیچے ”وانکو برج“ ہے جس کے نیچے سے گزر کر سندھو مرول ٹاپ کی طرف بہتا ہے۔دراصل وانکو گاؤں ہی سندھو کے پاکستان میں داخل ہونے کا اصل مقام ہے۔ وہ سامنے نظر آتی سفید پتھروں کی دیوار ”لائن آف کنٹرول“ ہے۔اس کے قریب ہی آپ کو بھارتی گن پوزیشن بھی نظر آ رہی ہو گی۔ ہم بھی اس گن کے نشانے پر ہیں۔“ مجھے تو دکھائی نہ دی البتہ مشتاق کی عقابی نگاہوں نے نہ صرف بھارتی گن پوزیشن ڈھونڈ لی بلکہ پاکستانی سرحد پر پہاڑ کی چوٹی پر لگی پاکستانی گن پوزیشن بھی دیکھ لی ہے۔ مجھے سندھو کی سرگوشی سنائی دی؛”دوست! دیکھو میں پاکستان میں داخل ہو اہوں، کوئی بارڈر، کوئی باڑ مجھے روک نہیں سکی ہے۔ تمھارے دائیں ہاتھ ’’ شنگو ریور“ اور مرول ٹاپ ہمارا سنگم ہے۔ پاکستان میں میری پہلی ڈسٹری بیوٹری۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)