یہ سفید فاموں پر ہٹلر کے دباؤ کا نتیجہ ہی تھا کہ سیاہ فاموں کو کارخانوں میں مناسب نوکریاں ملیں اور سٹالن نے اس دباؤ کو برقرار رکھا

 یہ سفید فاموں پر ہٹلر کے دباؤ کا نتیجہ ہی تھا کہ سیاہ فاموں کو کارخانوں میں ...
 یہ سفید فاموں پر ہٹلر کے دباؤ کا نتیجہ ہی تھا کہ سیاہ فاموں کو کارخانوں میں مناسب نوکریاں ملیں اور سٹالن نے اس دباؤ کو برقرار رکھا

  

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الح چوہانق 

قسط:107
 رپورٹرز ایسے”اچھے“ لوگوں کو پیش کرنے کی پوری کوشش کرتے جن کو میں رد نہ کر سکوں۔ ایک صحافی کی آواز تو شدت جذبات سے رندھ گئی اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے خیال میں کوئی ایسا سفید فام بھی ہے جس نے امریکی سیاہ فاموں کے لیے کچھ کیا ہو؟ میں نے جواب دیا”ہاں دو آدمی ایسے ہیں ہٹلر اور سٹالن۔ یہ سفید فاموں پر ہٹلر کے دباؤ کا نتیجہ ہی تھا کہ سیاہ فاموں کو کارخانوں میں مناسب نوکریاں ملیں اور سٹالن نے اس دباؤ کو برقرار رکھا۔“
 لیکن قطع نظر اس بات کے کہ میں انٹرویو میں کیا کہتا تھا میرے بیان کو کبھی صحیح حالت میں چھاپا نہیں گیا۔ اسے ہمیشہ توڑ موڑ کر اور گھما پھرا کر چھاپا جاتا”اگر میں کہتا کہ مریم کے پاس ایک میمنا تھا“ تو اخبار میں چھپتا”میلکم ایکس کی مریم پر طنز۔“
 میری تلخی سفید پریس کی بجائے ان نیگرو رہنماؤں“ کے خلاف تھی جو ہم پر حملے کرتے تھے۔ جناب ایلیا محمد چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے ہم سیاہ فام رہنماؤں کے خلاف کھلم کھلا جوابی حملے سے گریز کریں کیونکہ سیاہ نسل کو تقسیم کرکے باہم لڑوانا بھی سفید فام کا ایک داؤ تھا۔ اس کی وجہ سے سیاہ فاموں میں وہ اتحاد پیدا نہیں ہو سکا جو امریکی سیاہ فاموں کے لیے از بس ضروری تھا۔ لیکن جتنا ہم پیچھے ہٹتے یہ سیاہ پتلیاں اتنی ہی شدت سے بڑھ بڑھ کر ایلیا محمد پر حملے کرتیں حتیٰ کہ ایسا محسوس ہونے لگا گویا ہم ”اہم“ نیگروز کے خلاف بولنے سے ڈرتے ہیں بالآخر ایلیا محمد کا تحمل جواب دینے لگا اور ان کی تائید سے میں پھر آگ اگلنے لگا۔
 ”آج کا انکل ٹام سرپر رومال نہیں باندھتا بیسویں صدی کا انکل ٹامس اکثر ٹاپ ہیٹ پہنتا ہے۔ وہ خوش لباس اور تعلیم یافتہ ہے وہ مجسم تہذیب و شائستگی نظر آتا ہے وہ ییل اور ہارورڈ کے لہجے میں بولتا ہے وہ پروفیسر ڈاکٹر، جج اور ریورنڈ بلکہ رائٹ ریورنڈ ڈاکٹر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کا انکل ٹامس ایک پیشہ ور نیگرو ہے…… میرا مطلب ہے کہ سفید فام کے لیے نیگرو بننا اس کا پیشہ ہے۔“
 اس سے قبل امریکہ بھر میں ان منتخب نام نہاد رہنماؤں کے کسی نے سرعام پرزے نہیں اڑائے تھے۔ وہ اپنے متعلق سچ سن کر سفید فاموں سے بھی زیادہ مشتعل ہوئے اور انہوں نے اپنے نامور اداروں کے ذریعے ایلیا محمد پر حملے کرنا شروع کیے۔ میں انہیں ”سفید سروں والے سیاہ جسم“ کہتا تھا۔ ان نیگرو ترقی کی تنظیموں کے اجزائے ترکیبی ایک سے تھے۔ سیاہ فام”رہنما“ عوام کے دکھاوے کے لیے سامنے ہوتے تاکہ وہ عام سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے خلاف لڑتے نظر آئیں۔ لیکن ان کی اصل ڈوری پردے کے پیچھے بیٹھے سفید فام صدر یا بورڈ چیئرمین وغیرہ کے ہاتھ میں ہوتی۔
 میری شعلہ فشانی کو لائف،لُک، نیوز ویک اور ٹائم وغیرہ چھاپتے۔ کچھ اخبارات نے ایک آدھ مضمون یا خبر چھاپنے کے بجائے”قوم اسلام“ پر چار چار پانچ پانچ مضامین چھاپنے شروع کر دیئے۔ ریڈرز ڈائجسٹ نے جوکہ13زبانوں میں 24 ملین کی تعداد میں چھپتا ہے اور دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے ایک مضمون"Mr Muhammad Speaks" کے عنوان سے چھاپا یہ مضمون انہی صاحب نے لکھا تھا جنہیں میں یہ کتاب لکھوا رہا ہوں (میلکم ایکس کی مراد ایلکس ہیلی سے ہے جنہوں نے میلکم ایکس کا زیر نظر انٹرویو کیا تھا اور خود بھی اس موضوع پر شہرۂ آفاق ناول ”روٹس“ لکھا تھا۔ مترجم) جس کی وجہ سے ہمیں دیگر اہم ماہناموں میں بھی جگہ ملنے لگی۔
 ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں مجھے پینل گفتگو اور مباحثوں میں ”قوم اسلام“ کے دفاع کے لیے بلایا جاتا۔ میرا سامنا خاص قسم کے دانشوروں سے ہوتا جن میں سفید اور سیاہ فام دونوں شامل ہوتے وہ لوگ ایلیا محمد کی تعلیمات کو اس طرح غلط انداز میں بگاڑ کر پیش کرتے کہ مجھے آگ لگ جاتی۔ مجھے اس سے قبل مسلمانوں کے علاوہ کسی اور مجمع کے سامنے بالخصوص ریڈیو ٹیلی ویژن پر مائیکرو فون کے ذریعے لاکھوں لوگوں سے خطاب کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
 اٹھائی گیری کے زمانے سے میں جان گیا تھا کہ ہر کام کے کچھ خاص داؤ ہوتے ہیں اور جیل میں مباحثوں کے دوران مخالفین کو غیر متوقع طور پر پریشان کرنے کا ہنر سیکھ چکا تھا۔ مجھے علم تھا کہ نشری انٹرویوز میں بھی کوئی نہ کوئی ایسے داؤ ہوں گے جو میرے علم سے باہر ہیں اور اگر میں دوسروں کے افعال کا بغور جائزہ لوں تو بہت جلد ایلیا محمد اور ان کی تعلیمات کا دفاع کرنے کے لائق ہو جاؤں گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -