دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔۔۔کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۔۔۔ فارسی گوشعراء کا اثر بھی اقبال کے ہاں بہت نظر آتا ہے

 دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔۔۔کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ...
 دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔۔۔کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۔۔۔ فارسی گوشعراء کا اثر بھی اقبال کے ہاں بہت نظر آتا ہے

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:41
 قومی اور اسلامی زوال کے غم کے ساتھ ساتھ تہذیب مغرب کا باطن بھی ان پر روشن ہوتا گیا۔ ایک طرف تو وہ ملت اسلامیہ کو اسلامی تعلیمات کی طرف بلاتے ہیں اور دوسری طرف مغربی تہذیب کے عیوب بھی ان پر واضح کرتے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات و روایات کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے بیان میں ایک ولولہ خیز کیفیت ہوتی ہے۔ اسی بناء پر انہوں نے بعض الفاظ کو مسلسل استعمال کرکے ان کے مفہوم و معانی میں زیادہ وسعت پیدا کر دی۔ مثلاً حیدری، کراری، خواجگی وغیرہ۔ اس کے برعکس جب وہ مغرب اور تہذیب فرنگی کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے لہجے میں بعض اوقات ایک تلخی اور طنز پیدا ہو جاتی ہے جس پر اگر زیادہ غور کریں تو اس میں دلی دکھ اور درد کا اظہار بھی ملتا ہے۔  
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ڈھونڈ رہا ہے فرنگِ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنّائے خام، وائے تمنّائے خام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلِ نظر ہیں یورپ سے نومید
ان امّتوں کے نہیں ہیں باطن پاک
اقبالؒ کے شاعرانہ ذہن کی تشکیل و تعمیر اور پختگی میں بعض فارسی شعراء کا بھی خاصہ حصہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف ان شاعروں کا عمیق مطالعہ کیا ہے بلکہ ان کی نمایاں خصوصیات کو بھی سراہا ہے اور اس سے کافی حد تک اثر قبول کیا ہے اور بقول ڈاکٹر سید عبداللہ اقبال کے ہاں رومی کی مستی ووجد اور جوش، حافظ کی رندانہ علامات اور اسالیب کا خاصا اثر موجود ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان کے فارسی گوشعراء کا اثر بھی اقبال کے ہاں بہت حد تک نظر آتا ہے تازہ گویانِ ہند میں سے بالخصوص عرفی کے تخیل کی بلندی،جوشِ حیات، بلند نگری و خود داری، جارحانہ رجحان اورپُر خروش لب ولہجہ سے اقبال متاثر ہوئے ہیں۔ فیضی کی فلسفیانہ فکر، عالمانہ اور حکیمانہ مسائل، نظیری کی نبرد آزمائی، جفاطلبی اور سخت کوشی، بیدل کی پُر خروش اور بحور اور جوش انگیز لب ولہجہ، جوش زندگی اور حقائق پسندی، غالب کا تندو تیز لب و لہجہ، جارحانہ نقطۂ نظر اور غم میں نشاط کا پہلو سب کا پر تو ہمیں اقبال کے کلام میں نظر آتا ہے لیکن اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ اقبالؒ نے سب کچھ انہی شعراء سے لیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی ویسے ہی ذہنی اور نفسیاتی میلانات رکھتے تھے۔ اسی بنا ء پر انہوں نے فارسی شعراء کے ان اوصاف کو جا بجا سراہا ہے۔ 
بملک جم ندہم مصرعۂ نظیری را
کسے کہ کُشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست
یہی سرفروشی اور جاں بازی اقبال کو بھی مرغوب تھی اور وہ طبعی طور پر اس طرف میلان رکھتے تھے۔ مختصر یہ کہ ان فارسی شعراء کے گہرے مطالعہ نے اقبال کے خیالات و افکار کے علاوہ ان کے شاعرانہ لب و لہجہ کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ بھی فارسی شعراء کے اسی گروہ کے آخری شاعر ہیں۔ ایک جگہ رومی سے اپنی اثر پذیری کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
چوں رومی در حرم دادم اذانِ من
ازو آموختم اسرارِ جانِ من
بدور فتنۂ عصرِ کہن اُو
بدورِ فتنۂ عصرِ روانِ من
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -