مجھے مکہ کا وہ پسماندہ علاقہ دیکھنے کیلیے کہا گیاجہاں سہولیات نہیں تھیں جرائم کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی،یہاں زیادہ تر غیر قانونی باشندے رہتے تھے

مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:125
اے لیول کرنے کے بعد عمر کو غلام اسحٰق خان اور لمز یونیورسٹی کی طرف سے داخلے کیلئے رضامندی کی اطلاع موصول ہوئی لیکن اس نے لمز میں داخلہ لینے کو ترجیح دی، اور ستمبر 1995 میں اس نے کمپیوٹر سائنس میں اپنی تعلیم کا آغاز کر دیا۔ جب وہ چوتھے سمیسٹر میں تھا تو ایک دن وہ گھر کے پاس ہی واقع راجہ مارکیٹ گیا جہاں کچھ لوگوں نے پستول دکھا کر اس کی کار چھین لی۔ الحمدللہ کہ اس کو کوئی گزند نہ پہنچا جو سب کے لیے بہت سکون کی بات تھی۔ میں ان دنوں ریاض میں تھا اس لیے قدرتی طور پر میں یہ خبر سن کر بہت پریشان ہوا اور سہم سا گیا۔ اس دوران مدیحہ نے ایم بی اے مکمل کرلیا تھا اور اب وہ ایک بینک میں زیر تربیت تھی۔ پھر میں نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ میں نے عمر کو کہا کہ وہ اپنی باقی ماندہ تعلیم امریکہ جا کر مکمل کرے اور وسیمہ اور مدیحہ ریاض میرے پاس آ جائیں گی۔ ہر چند عمر لمز میں بہت خوش اور مطمئن تھا مگردریں حالات اس نے امریکہ میں اپنی تعلیم کے لیے اچھی یونیورسٹی کی تلاش شروع کر دی۔ اور اس نے پورڈیو (Purdue) یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، یہ دنیا کی ان چند بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جہاں انجینئرنگ کی بہترین تعلیم دی جاتی ہے۔ اور یوں میری پریشانیاں کم ہوگئیں اور میں 6 سال کے وقفے کے بعد ایک دفعہ پھر ریاض میں اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ رہنے لگا۔ عمر نے یونیورسٹی میں اعزاز کے ساتھ صرف اڑھائی سال کے ریکارڈ وقت میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجویشن مکمل کر لی۔ جیسے ہی وسیمہ اور مدیحہ ریاض پہنچیں ہم نے اپنا فلیٹ چھوڑ کر ڈپلومیٹک کوارٹرز کے قریب ایک کمپاؤنڈ میں بنگلہ لے لیا۔ یہ ایک بہت ہی مناسب اور اچھی جگہ تھی اور ہمارے پڑوسی بھی بہت نفیس لوگ تھے۔ ہم لوگ ریاض سے اپنی رخصتی کے وقت یعنی اکتوبر 1998 تک وہیں مقیم رہے۔
ایک دن ڈاکٹر صالح الہتھلول نے مجھے مکہ کا وہ پسماندہ علاقہ دیکھنے کے لیے کہا جہاں کسی قسم کی کوئی سہولیات نہیں تھیں اور جرائم کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ میں مکہ پہنچا اور مقامی انتظامیہ کے نمائندوں کے ساتھ اس علاقے میں داخل ہوا تاکہ میں یہاں کے زمینی حقائق کو خود دیکھوں اور اس سلسلے میں میں اپنی ابتدائی رپورٹ مرتب کر سکوں۔ یہاں میں نے دیکھا کہ چھوٹی عمر کے بچے جنہیں اس وقت سکول میں ہونا چاہئے تھا گلیوں میں کھیلتے پھر رہے تھے اور نوجوان لڑکے بلا مقصد گلیوں کے چکر لگا رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہاں کے رہائشیوں میں زیادہ تر دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے غیر قانونی باشندے ہیں چونکہ وہ قانونی طور پر یہاں کام نہیں کر سکتے اس لیے وہ یہاں آباد ہوگئے ہیں اور یہ سلسلہ 3 نسلوں سے چلا آرہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو مستقل ملازمت نہیں ملتی تھی، نہ ہی کوئی علاج معالجہ کا انتظام تھا۔ بچوں کی تعلیم کا بھی مسئلہ تھا۔ روزمرہ کی کوئی سہولت نہیں تھی اور اگر تھی تو انتہائی ناقص۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہائشی ناجائز قابضین تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہاں کسی قسم کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام شروع کرنے سے پہلے ان کی بنیادی مشکلات کو سمجھا جائے۔ میں ریاض واپس آیا اور حکومت کو رپورٹ پیش کی جس میں سب سے پہلا نقطہ یہی اٹھایا گیا تھا کہ ان کا غیر قانونی رہائش کا مسئلہ حل کیا جائے تو اس سے دوسرے مسائل حل کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ ڈاکٹر صالح نے یکدم مجھ سے سوال کیا کہ جب آپ اس علاقے میں گئے تھے تو کیا پولیس کو ساتھ لے کر گئے تھے میں نے نفی میں سر ہلایا، تو انھوں نے کہا کہ تم نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ وہاں تو کوئی سرکاری افسر بھی سیکیورٹی کے بغیر نہیں جاتا۔ مجھے نہیں علم کہ میری اس رپورٹ کا کیا حشر ہوا لیکن کم از کم میرے سعودی عرب میں قیام کے دوران اس کے بارے میں میری دوبارہ کسی سے بات نہیں ہوئی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔