فتح مکہ
ان کی آنکھوں میں دیدارِ کعبہ کی حسرت مچلی ہوئی تھی۔ پرجمال جبینوں میں حیرت خیز حد تک شکر گزاری کی امواج کا تلاطم برپا تھا۔ رسول اللہ اپنے ذی شانِ صحابہ ؓ کی جلو میں مکہ عمرے کی ادائی کے لئے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ کی آمد سے ، مکہ میں اسلام کی بجلیاں کڑک اُٹھیں۔ کفر کی بدلیاں کانپ کانپ گئیں۔ اہل ِ کفار وحشت زدہ آہو کی مانند مکہ سے باہر چلے گئے۔ جب اہل ِ کفار نے مسلمانوں میں تفاخر کو نہ دیکھا، ان میں سادگی کو پایاتو چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ کہنے لگے مسلمان تو تنگ دست ہیں۔ مصیبتوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ان کی خستہ حالی ان کے چہروں پہ لکھی ہے۔ وہ مسلمانوں کی حالت ِ زار پہ افسوس کرنے لگ گئے۔ خود پہ نازاں ہوتے ہوئے ڈینگیں مارنے لگے کہ ہم ایک قوت ہیں۔ قوت ہی دنیا کی حقیقت ہوتی ہے۔
عمرے کی ادائیگی کے بعد جب رسول اللہ نے میمونہ بنت ِ حارث سے نکاح فرمایا۔ مسلمان دو خوشیوں سے نہال ہو گئے۔ رسول اللہ نے اہل ِ مکہ کو اس خوشی میں شریک کرنے کی خاطر انہیں کھانے کی دعوت دی۔ تو اہل ِ کفار نے نخوت و کبر میں یہ کہتے ہوئے دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ہمیں کمزور و ناتواں مسلمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم لوگ اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر مصائب کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہو۔وہ مسلمانوں پر استہزاءکرتے۔ یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کی قوت کا مذاق اڑاتے رہے کہ یہ تو وہ ناقہ ہے، جس کے تھن خشک ہو چکے ہیں،جو دودھ دینا بھول چکی ہے اور ہم، حیرہ و ہرقل و شاہان کسریٰ کے ہم محفل ہیں۔ ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ جب چاہیں مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کر سکتے ہیں۔
دورانِ عمرہ مسلمان ، سارے عالم کو ، رسول اللہ سے عشق کی خوشبو سے مہکانے میں مست تھے۔ دین اسلام کا جام پی کر رقصاں تھے۔ ان کے بدن کے روئے روئے میں جذبہ ایمانی سمندر کی سطح پر ناچتی اَن گنت موجوں کی مانندرقصاں تھا جو سمندر کے کنارے سے مستی کے عالم میں سر پٹختی، بکھرتی ردو بار سمندر کے پانی میں شامل ہو کر وجد کرنے لگتیں۔ یہ عمرہ عشق کا عمرہ تھا۔ عشق میں زمانے کا ہوش ہی کہاں رہتا ہے۔ اس عشق میں وہ اہل ِ کفار سے یک سر غافل تھے۔ اسی ایمانی مدہوشی میں صحابہ واپس مدینہ آ گئے۔
موتہ کے بعد، ایک باادب خاموشی نے، مدینہ پر اپنی چادر اوڑھ دی۔ وہاں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ رسول اللہ سورج کی طرح مسلمان کی زندگیوں میں روشن تھے۔ پھر، ایک دن اس خاموشی کا دِل دہل گیا۔ اس کا سینہ زخما گیا۔ بنی بکر نے بنی خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ ایام العرب کی آڑ میں ، اہل ِ کفار نے مدینہ میں سکون تہس نہس کرنے کی چال چل دی۔ وہ بنو بکر کے پشت بان بن بیٹھے۔ بنی بکر کو اُکسانے لگے کہ بنی خزاعہ کو ،ملیامیٹ کر دو، مسلمانوں میں کیا دم خم کہ ہم سے ٹکرا سکیں۔ ہم تو وقت کی طاقت ہیں۔ وقت کی قوتوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، ان کی شبینہ محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اہل ِ کفارنے بنی بکر سے کہا کہ تم نے دیکھا نہیں ہرقل اور اس کی رعایا ان مسلمانوں کے خلاف کیسے بپھر گئے تھے۔ ان مسلمانوں کے نیزے اور تلواریں کند ہیں۔ ہم عمرے کے دوران ان کے بوسیدہ ہتھیار دیکھ چکے ہیں۔ یہ ہتھیار بکری تو ذبحہ کر سکتے ہیں، مگر ہماری آہنی گردنیں نہیں۔ اس وقت، اہل ِ کفار کا کبر عالم افلاک پر کمند ڈالے ہوئے تھا، ستاروں سے اُلجھ رہا تھا۔
تب ، بدیل بن ورقہ جب بے سر و سامانی کی حالت میں رسول اللہ تک پہنچے اور فریاد کناں ہوئے۔ ان کی فریاد کو قبول فرما لیا گیا۔ جنگ کا طبل بج گیا۔ نقارہ خوشی میں جھوم اُٹھا۔ پھر، اسلامی لشکر، جھنڈے اٹھائے مکہ کی طرف چل پڑا۔ لوگ اسلامی فوج کی جبروت، شکوہ، شوکت و شان دیکھ کر پکار اُٹھے کہ یہ فوج ، لات کی فوج پر غالب آ کر رہے گی۔ ان کے ہتھیار اس وقت زمزمہ بار تھے کہ ہائے اہل ِ کفار کو ہمارے بارے میں حقیقت ِ حال معلوم ہی نہ ہو سکی کہ یہ کن کے ہاتھوں میں ہیں، وہ جن کے ہاتھ میں خش و خاشاک بھی شمشیر آبدار بن جاتے ہیں۔
مکہ کی جانب سفر کے دوران مسلمان خواہش کرتے کہ اہل ِ کفار سے لڑتے لڑتے،وسیع تلوار کا گھاﺅ یا تو ان کے اپنے جسم میں اس طرح پیوست ہو کر اندر سے جھاگ پھینکنے لگے یا دشمن کے جگر اور انتڑیوں کے آر پار ہو جائے۔ موت کو آگے بڑھ کر گلے سے لگا لینے کا جذبہ، دشمن پر رعد بن کر لپکنے کی قدرت، یہ دِل دہلا دینے والا جلال محض مسلمانوں ہی کی میراث تھی جس کا منبع رسول اللہ کی ذات تھی۔ مکہ کی جانب لشکر کشی کے دوران، وہ رطلِ گراں لے کر بیدار ہو ئے، جن میں ایمان کی صبوحی تھی۔ وہ برہنہ شمشیروں اور چھلکتے پیالوں کی مانند چلے آ رہے تھے۔ درحقیقت، مسلمان ملاعب الاسنہ (نیزوں سے کھیلنے والے) معلوم ہو رہے تھے۔ انہوں نے جنگ و جدل کی خاطر آرام و آسائش کو تج دیا تھا۔ اس کے باوصف، انہیں ضبط میں رہنے کا حکم دیا گیا۔
مگر، شورہ پشت اہل ِ کفار اب بھی اپنے غرور کے گھوڑے کو لگام نہ ڈال سکے۔ میدان آرائی کرنے لگے۔اسلامی فوج کو جنگ پر اُکسانے لگے۔ جب مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو ان کے نیزوں کی انیاں سفید، چمک دار تھیں گو کہ سفید جھنڈے ہوں، مگر جب وہ میدان میں للکارے گئے، مڈبھیڑپر اکسائے گئے تو پھر وہ بھڑ گئے۔ ان کے نیزے اورشمشیریں لہو رنگ ہو گئیں۔ مسلمانوں کے نیزے اہلِ کفار کو ڈسنے لگے۔نیزوں کی نوکیں مڑ گئیں۔ ان کے ہتھیاروں نے دبنے لچکنے سے انکار کر دیا۔ ان کی آبدار تلواروں کی ضرب چیر کر سروں تک پہنچی گئی۔ ان کی ضربِ شمشیر سے گردنیں اور کلائیاں یوں کٹ کٹ کر اڑ نے لگی تھیں کہ جیسے ڈنڈے سے گلیاں۔ آہن پوش پوش مسلمان، گھوڑوں کی پشت پر بیٹھے گھنی ایال والے شیروں کی مانند ڈکار رہے تھے۔ اس وقت موت کے تیر ان پر اوچھے پڑتے رہے۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ دورانِ جنگ، مسلمان باآواز بلند کہتے کہ جب ہمیں آزمایا جائے تو ہم ہلاک کر ڈالتے ہیں۔میدان جنگ میں تلواریں بھڑاتے مسلمانوں کے چہرے ایمان کی روشنی سے یوں دمک رہے تھے جیسے سمندری سیپ کے موتی ہیں۔
آخر کار، اہل ِ کفار کو زوال سے دوچار ہونا پڑا۔ نخوت و کبر کے قلعے مسمار ہو ئے۔بڑے بڑے سردار رسول اللہ کی بارگاہ میں سرنگوں ہو گئے۔ فتح یابی مسلمانوں کا انعام ٹھہری۔ ایک نئی روشنی،نیا سویرا کفر کے اندھیرے کو نگل گیا۔ سیاہ رات کے تاریک پانی میں قدرت نے ید ِ بیضا کو رکھ دیا۔تاریکی کی سانسوں میں نور کا دھواں گھل گیا۔ سیاہی اُڑ گئی، شب سیاہ تاراج ہو گئی، شب کافر لٹ گئی، اور تاریکی کی آغوش ویران ہو گئی۔ ریت کے ٹیلوں نے اسلام کی چادریں اوڑھ لی۔ اس دن امن مسلمانوں کے گھر کی لونڈی بن گیا۔ وہ امن کی دولت کو سر عام لٹانے لگے۔ ہندہ کو معاف کر دیا۔ حبشی کی ہر خطا در گزر کی۔ صفوان بن امیہ کو راحت بخشی۔ عکرمہ کے خوف کو دور کیا۔ اس کے دل کو امن کی پھوار میں بھگویا۔ رسول اللہ نے سب کو امان دی، جس جس نے جو جو مانگا وہی عطا کیا۔ اور زمانے کو بتایا کہ مسلمان امن کے داعی ہیں۔ مبلغِ امن ہیں۔سورج کی شب ِ سیاہ میں ڈوبی انگلیاں ایمان کی روشنی میں باہر نکلی آئیں۔ اور مکہ فتح ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
