چائلڈ لیبراور پاکستان

چائلڈ لیبراور پاکستان

  

 صبح صبح سردی سے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ ےخ پانی سے برتن دھوتے ہوئے نو سالہ عامر کو دےکھ کر مےری آنکھوں میں آنسو آگئے۔سوچوں کا در کیا وا ہوا، بہت کچھ قطار در قطار ذہن کے پردے پر آنے لگا ۔بے اختےار دل نے کہا یہ سراسر ظلم ہے ۔دماغ نے دل کی بات پر استہزائیہ لہجے میں قہقہہ لگاےا ۔دل نے دوبارہ سرزنش کی کہ کیا ےہ اس کے سکول جانے کی عمر نہیں ؟ذہن نے ہونہہ کہہ کر منہ پھیر لےا ۔یہ ساری کشمکش اس نو سالہ عامر کے لئے تھی، جو سامنے والے ہوٹل میں ملازم تھا ،جسے عرف عام میں چھوٹا کہا جاتا ہے، اےسے کئی ” چھوٹے“ ہمیں اپنے اردگرد نظر آتے ہیں ۔گندے لباس ،کالے ہاتھ، گرےس اور آئل سے بھرے داغ زدہ چہرے، جن سے معصومےت چھین کر نوعمری میں ہی فکروتردد کی چھاپ لگادی گئی۔ ان کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار تھما دئیے گئے ۔ان کے بے فکر ذہنوں میں خوش رنگ تتلےوں اور پرےوں کی کہانی کے بجائے فکر ِ معاش کی فکروں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں ۔قصور کس کا ہے؟والدین کا جنہوں نے انہیں جنم دےا ےا پھر معاشرے کا ، جس نے ان کو اس مقام پر پہنچا دےاےا پھر حکومت کاجو ان کے گھر کے بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد نہیں کر سکتی ےا اس غربت کا، جس کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں سے خواب نوچ کر فکر سجا لیتے ہیں ۔

شاید ہم سب قصوروار ہیں یہ ہماری اندر کی کرپشن ہے جو ہمیں کسی ظلم کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے روکتی ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی کے انتظار میں ہیں کہ آئے اور ہمیں کھا جائے۔نہ جانے ہم اتنے بے حس کیوں ہیں ؟.... 18سال سے کم عمر بچوں کی مزدوری چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچے، جو مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں، چائلڈ لیبر کہلاتے ہیں۔ 20 نومبر کوےہ دن مناےا جاتا ہے،جس میں چند دھواں دار تقرےریں اور اےک عمدہ ضےافت ہوتی ہے اور بس دن کا اختتام ہو جاتا ہے ۔کوئی ان مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتا، جن کی وجہ سے چائلڈ لیبر جیسا گھمبیر مسئلہ جنم لیتا ہے۔ دُنیا ایک گلوبل ولیج ہے اور چائلڈ لیبر اس میں ہونے والا ایک اہم ایشو، جس پر صدیوں سے بات ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اگرچہ ان مسائل سے ساری دنیا دوچار ہے، مگر خاص طور پر افریقہ،امریکہ اور ایشیا میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ایشین ممالک 1\10 مین پاور پر مشتمل ہیں۔

 اعدادوشمار کے مطابق جائزہ لیں تو انڈیا میںدس سے 14 سال کی عمر میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد 45ملین کے لگ بھگ ہے ۔ برازیل میں7ملین، نائیجیرےا میں 10ملین ،بنگلہ دیش میں 8سے12 ملین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں 11ملین بچے مزدوری کرتے ہیں ۔ ان میں آدھی تعداد کی عمر10سال ہے، جبکہ1996ءسے ان کی تعداد 6سے 7سال تک آگئی۔ اب ےہ حال ہے کہ کل آبادی کا چوتھائی حصہ مزدور بچوں پر مشتمل ہے۔اگرچہ پاکستان کے آئین کے مطابق چودہ سال سے کم عمر بچے کسی فےکٹری ےا کار خانے میں کام نہیں کر سکتے، کیونکہ جبری مشقت اور انسانی تجارت اسلامی جمہوریہ کے کاغذوں میں ممنوع ہے ۔سوال ےہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے مزدوری کیوں کرتے ہیں ؟ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ غربت ہے۔ اِس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں پیٹ پالنا بہت بہادری کا کام ہے۔ کم عمری میں سر سے والدین کا سایہ اُٹھ جانا،گھر میں بہت زےادہ افراد کا ہونا اور کمانے والا ایک ہو تو ےہ صورت حال ہوتی ہے۔ آخر زندگی کی گاڑی بھی تو دھکیلنی ہے۔ مختلف ہوٹلوں، دکانوں، ورکشاپوں ، سگنلوں پر ہاتھوں میں کپڑا تھامے،ےہ سب بچے ہمارے لئے سوالیہ نشان بنے نظر آتے ہیں۔ کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ یہ سکول جائیں، مگر کیا تدارک ہے اس غربت کا؟ کیا کوئی حل نہیں، آخر کب تک ہم ان مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے ، اس ظلم کو سہتے رہیں گے اور ان نودمیدہ کلیوں کو کچلتا دیکھتے رہیں گے۔   ٭

مزید :

کالم -