زرعی فنانس کو ترقی دینے کے لیے اجتماعی و مربوط طر ز فکر کی ضرورت ہے اسحاق ڈار
اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں زرعی شعبے اور زرعی فنانس کو ترقی دینے کے لیے اجتماعی و مربوط طرز فکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہارانہوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں ”پاکستان میں اختراعی دیہی و زرعی فنانس کی ترقی“ پر مالی اختراع چیلنج فنڈ (ایف آئی سی ایف) کے دوسرے مرحلے کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس پروگرام کے لیے فنڈز یو کے ایڈ فراہم کر رہی ہے اور اسٹیٹ بینک اس پر ”پاکستان مالی شمولیت پروگرام“ کے حصے کے طور پر عملدرآمد کروا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں غربت کم کرنے کی غرض سے مالی شمولیت کو فروغ دینے میں ڈی ایف آئی ڈی اور اسٹیٹ بینک کے درمیان شراکت داری سے دونوں ممالک کے درمیان روابط مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک اور برطانوی حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پست آمدنی والوں اور بینکاری سہولتوں سے محروم آبادی خاص طور پر ہمارے دیہی گھرانوں اور دیہی کاروباریوں کو طلب پر مبنی اختراعی مالی خدمات فراہم کر کے شراکتی اقتصادی نمو کو فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔انہوں نے حاضرین کو نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقدامات یاد دلائے جن میں پاکستان میں بینکاری شعبے کی اصلاحات شامل تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تب سے پاکستان کی صنعت بینکاری مےں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر جناب اشرف محمود وتھرا نے اپنے خیرمقدمی کلمات کہا کہ دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے مالی اختراع کو چھوٹے کاشت کاروں کی پیداواریت بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غربت سے نمٹنے کے لیے بنیادی سوچ مےں تبدیلی اور اختراع کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ غربت میں کمی کے لیے مالی رسائی بہتر بنانا ایک عالمی چیلنج ہے۔ ”دنیا کے 2 ارب سے زائد بالغ افراد کو نیم رسمی یا رسمی مالی خدمات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، موبائل فون رکھنے والے ایک ارب افراد کے پاس ایک عام بینک اکاﺅنٹ تک نہیں۔“انہوں نے کہا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک دونوں ہی اختراعی طرز فکر اور اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جناب وتھرا نے غذائی تحفظ، اقتصادی نمو، اور غربت و عدم مساوات کم کرنے مےں زراعت کے بنیادی کردار پر زور دےتے ہوئے کہا کہ دیہی شعبے مےں مالی خدمات تک رسائی مےں اضافہ اس سلسلے مےں ناگزےر کردار ادا کر سکتا ہے۔انہوں نے حاضرین کو اسٹیٹ بینک کے ان اقدامات سے مختصراً آگاہ کےا جو وہ زرعی قرضوں کے ذرےعے مالی شمولیت کے فروغ کے لےے کر رہا ہے۔ ان اقدامات مےں ےہ چیزیں شامل ہےں: بینکوں کو زرعی قرضوں کے حوالے سے شمولیتی پالیسیاں بنانے اور اپنے ےہاں مخصوص زرعی ڈویژن قائم کرنے کی ہداےت؛ فصلوں، باغات اور جنگل بانی کے لےے 2008ءمےں قرضے کی فی ایکڑ مقرر حد پر نظر ثانی؛ قرض گیروں کے لےے ”مویشی بیمہ اسکیم“ اور زرعی اشارتی ٹارگٹ اسکیم مےں سات مائکرو فنانس بینکوں کی شمولیت۔ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر جناب سعید احمد نے ”مالی شمولیتی پروگرام“ کے اجزا پر پیش رفت سے شرکا کو آگاہ کےا۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان مےں مالی خدمات سے محروم دیہی اور زرعی شعبوں کی قرضے کی ضروریات پوری کرنے والی جدت پسند پراڈکٹس اور ڈیلیوری ذرائع کی جانچ کے حوالے سے معےاری تجاویز کی وصولی کے منتظر ہےں۔انہوں نے کہا ”اس ایف آئی سی ایف راﺅنڈ کا اصل مقصد موجودہ دیہی و زرعی ایکو سسٹم کے فعال کرداروں (مثلاً خام مال فراہم کرنے والوں، ایگری گیٹرز، پروسیسرز، مارکیٹرز وغیرہ) کی استعداد کو شناخت کرنا اور اس استعداد کو باضابطہ مالی اداروں کے ذریعے مواقع پیدا کرنے کے لےے بروئے کار لانا ہے“۔شرکا کو بتاےا گےا کہ درخواست دہندگان 10 اپریل 2014ءتک مکمل تجاویز جمع کرائیں گے۔ ڈی ایف آئی ڈی، نجی شعبے، اور اسٹیٹ بینک کے نمائندوں پر مشتمل اےک غےر جانبدار مشاورتی کمیٹی جائزے کے بعد چیلنج راﺅنڈ مےں کامےاب ہونے والوں کی منظوری دے گی۔ اس موقع پر تحریری شکل مےں مفصل رہنما ہداےات تقسیم کی گئیں جو کہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوں گی۔ اس موقع پر برطانےہ کے محکمہ بین الاقوامی ترقی (ڈی ایف آئی ڈی) پاکستان کے سربراہ رچرڈ منٹگمری، حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر نعمان ڈار، دیگر بینکوں کے نمائندوں اور ایف آئی سی ایف مشاورتی کمیٹی کے ارکان محمود نواز شاہ اور منصور عارفین نے بھی خطاب کےا۔