حکومتی مذاکراتی ٹیم اور خود کش بمبار بچے
شدید تنقید کے باوجود طالبان سے مذاکراتی عمل بدستور آگے بڑھ رہا ہے۔ ان مذاکرات کا سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوا طالبان کو احساس ہو چکا ہے ان کی آڑ میں غیر ملکی قوتیں پاکستان کے امن کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ”را“ اور دیگر ایجنسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد اس چیز کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں اسلام آباد کچہری پر حملے کے فوری بعد طالبان کی ٹاپ لیڈر شپ نے دیگر گروپس سے باز پُرس کی،تقریبا سبھی نے لاعلمی کا اظہار کیا، شاہد اللہ شاہد نے فوری بذریعہ ٹی وی فوٹیج اپنے موقف کو پاکستانی قوم کے سامنے بیان کر دیا۔ طالبان کی طرف سے خود کو عوام کی نظروں میں کلیئر کرنے کی ایسی تیزی پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں طالبان کمانڈرز سخت اشتعال کے عالم میں ہیں، انہیں معلوم ہو چکا ہے بظاہر ان کی اطاعت کا دم بھرتے جنگجو ، انہیں مروانے کی خاطر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت ہائی لیول ٹارگٹس پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں طالبان حکومت کو یہ پیشکش بھی کر سکتے ہیں، ایسے گروپس جو وزیرستان کو میدان جنگ بنانا چاہتے ہیں کے خاتمے کی خاطر حکومت کا ساتھ دیں۔ آنے والے دو ہفتوں میں طالبان کو اعلیٰ پائے کی بصیرت سے کام لینا ہو گا۔ پاکستان میں امن اور طالبان کی بقاءدونوں چیزیں ان کے دانشمندانہ فیصلوں سے نتھی ہوں گی۔ یہاں حکومتی مذاکراتی ٹیم کو چند چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے طالبان کو واضح کر دیں امن کی کوششوں کو سب سے بڑا خطرہ ان خودکش بمبار بچوں سے ہے،جنہیں پچھلے چند روز کے دوران غائب کر دیا گیا ہے۔ طالبان سراغ لگائیں وہ بچے کدھر ہیں؟ آیا انہیں افغانستان کی طرف لے جایا گیا ہے یا پاکستان کے مختلف شہروں میں بھجوا دیا گیا ہے؟ ان خود کش بمبار بچوں کو کون نجی دشمنیوں کے کاروبار میں پیسے لے کر فروخت کر رہا ہے؟ سارے ماﺅذر، ساری کلاشنکوفیں اور ساری گولیاں اس وقت اپنی سفاکیت کھو بیٹھتی ہیں، جب صرف ایک خودکش بمبار بچہ جسموں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتا ہے۔
ان خودکش حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ شرپسند کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ کراچی کی خوں ریزی ہو یا آفتوں کے سیلاب میں بہتے انسان، دہشت گرد سبھی چیزوں سے بے نیاز اپنے ایجنڈے کو متواتر آگے بڑھا رہے ہیں۔ جوں جوں ملک میں امن کی امید پیدا ہو رہی ہے ظالمانہ کارروائیوں میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ پے در پے ہونے والے خودکش حملے اس امر کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں شدت پسند آنے والے دنوں میں پہلے سے چنی گئی سیاسی و مذہبی شخصیات پر حملہ آور ہوں گے۔ کیا دہشت گرد جس عزم کا اظہار کر رہے ہیں اس پر عمل درآمد کی اہلیت بھی رکھتے ہیں؟ اگر ماضی قریب میں جھانکا جائے، تو شواہد بتاتے ہیں وہ حالات بگاڑنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ اہم شہروں میں ان کا نیٹ ورک پہلے سے قائم ہے۔ یہاں نہ صرف ٹارگٹ پر حملہ آور ہونے والوں کو پناہ دی جاتی ہے، بلکہ ہدف کی ریکی بھی کروائی جاتی ہے۔ لاہور، کراچی اور اندرون سندھ کی مثالیں سامنے رکھئے۔ ہر دو چار مہینوں بعد رات کے وقت نامعلوم موٹر سوار سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ تھانوں، ناکوں اور نشان شدہ سرکاری رہائش گاہوں پر ہلکی نوعیت کے کریکرز اچھالے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کریکر پھٹتے ہی علاقہ ویران اور لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ جتنی دیر میں انتظامیہ پوری طرح مستعد ہوتی ہے، حملہ آور غائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے،جو حملہ آور کریکر اچھال سکتے ہیں، انہیں بم پھینکنے یا نصب کرنے میں کونسی دشواری ہو گی؟ جو بم نصب کر سکتا ہے اسے خودکش بیلٹ باندھنے سے کون روک سکتا ہے اور جو خودکش بیلٹ استعمال کر سکتا ہے اسے انتہائی اہم شخصیتوں تک رسائی سے کیونکر روکا جا سکتا ہے؟
کچھ عرصہ قبل یہ تاثر عام تھا مذہبی رجحان کی وجہ سے دہشت گرد مسلم لیگ(ن) کی قیادت بارے نرم جذبات رکھتے ہیں۔ یہ تاثر صریحاً غلط تھا۔ دہشت گرد ریاست کے دشمن ہیں۔ اس دشمنی کی راہ میں جو بھی ادارہ ، شخصیت حائل ہو گی اسے مار دیا جائے گا۔ دہشت گرد اپنے سوا کسی کو بھی پورا مسلمان تصور نہیں کرتے۔ انسانوں کو ذبح کرنا، خودکش حملے ، اغواءبرائے تاوان اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا، دہشت گردوں نے ان تمام چیزوں کے بارے فتویٰ لے رکھا ہے۔ حملوں میں بے گناہوں کی ہلاکت پر ان کا موقف ہے ، چونکہ مرنے والے یہ لوگ بدی کے نظام کے خلاف جدوجہد نہیں کر رہے تھے ، لہذا یہ منافقین میں سے تھے اور منافق اگر مارا بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اغواءبرائے تاوان سے حاصل ہونے والی رقم بھی ان کے لئے حلال ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے اس رقم کی تقسیم کے معاملے پر کئی کمانڈر محض حصہ کم ملنے پر ایک دوسرے کو ہلاک کر چکے ہیں۔ تہذیب سے دور یہ لوگ ترقی پسند معاشروں بارے اپنے بوسیدہ خیالات کو جراثیم کی مانند کمسن بچوں میں بھی انڈیل رہے ہیں۔ انہی بچوں کو ہر اول دستے کے طور پر استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دہشت گرد نہ صرف اپنے آپ کو جانی نقصان سے محفوظ رکھ پا رہے ہیں، بلکہ ان کی قیادتوں کو اپنی پناہ گاہوں سے نکلنے کا خطرہ لئے بغیر متعلقہ نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ بچہ اپنے آپ کو اُڑا ڈالے انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ وہ خود تو محفوظ ہیں نا۔
دس میں سے آٹھ خودکش حملہ آور نوعمروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ شعور کی منزلوں سے بہت دور ان نوعمروں کو ورغلانا اور حملے کے لئے ذہن بنانا آسان ہوتا ہے۔ ان خودکش حملہ آوروں میں رضاکاروں کے علاوہ وہ بچے بھی شامل ہوتے ہیں، جنہیں زبردستی اغوا کیا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایسے بچوں کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے، جن کے بولنے، سمجھنے کی صلاحیتیں دوسروں سے زیادہ بہتر ہوتی ہیں۔ ان سمجھدار بچوں کو حملے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ انہیں ایسے سمال ٹرینر کے طور استعمال کیا جاتا ہے، جس کا کام نئے آنے والوں کو اپنی عمر اور سمجھ کے مطابق ڈھالتے ہوئے پُرجوش کرنا ٹھہرتا ہے۔ ٹارگٹ کے لئے متعلقہ علاقے کی طرف روانہ کرتے وقت بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے گروپ کے تمام لڑکوں کو ابدی مسرت کی خاطر الوداع کیا جا رہا ہے، لیکن بعد میں چپکے سے ذہین اور تربیت یافتہ بچوں کو دوبارہ واپس منگوا لیا جاتا ہے۔ واپس آنے والے بچوں کا کام یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ یہ موبائل فون کے ذریعے ٹاسک کی طرف جانے والوں کا گاہے بگاہے حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔
اتنے منظم انداز میں کام کرنے والے گروپوں کو کس طرح کنٹرول کیا جائے گا؟ اگر کل کلاں کو یہ بچے قدرتی آفت میں پھنسے لوگوں کے کیمپوں میں پہنچ جاتے ہیں یا مدد کے طالب بن کر کسی اہم شخصیت تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو نتیجہ کیا ہو گا؟ انسانی مزاج میں بچوں بارے شفقت قدرتی بات ہے۔ دہشت گرد اسی انسانی شفقت سے کھیلتے ہوئے اہداف تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی مسلح تحریکوں نے کم از کم اس وقت کارروائیاں ضرور روک دیں، جب ملک بڑی آفات میں گھر گئے۔ بظاہر پاکستان کے محفوظ علاقے بھی آہستہ آہستہ شدت پسندوں کا میدان جنگ بنتے جا رہے ہیں۔ سب سے تشویشناک پہلو کراچی میں گہری ہوتی بدامنی کی لہر ہے۔ دُعا کریں اس لہر میں خودکش بمبار بچے بھی شامل نہ ہو جائیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو بمبار بچے کراچی کے خان خوانین اور بھائی لوگوں سمیت اندرون سندھ قوم پرست لیڈروں کو بھی ماریں گے۔ مذاکرات مخالف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ آپریشن کی رٹ لگانے والے قائدین یا تو بالکل ان پڑھ سوچ کے مالک ہیں یا وہ غیر ملکی پے رول پر کام کر رہے ہیں۔ ابھی کئی دشوار گزار مرحلے آئیں گے۔ لیکن اگر ایک بار آپریشن شروع ہوگیا، تو اب کی بار دونوں اطراف اپنی انتہاﺅں پر ہوں گی۔ نہ حکومت طالبان کو چھوڑے گی اور نہ ہی طالبان ان لیڈروں کو چھوڑیں گے جو جان بوجھ کر آپریشن کی راہ ہموار کروانے میں جتے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ان دانشوروں کے گھر بیٹھے ہی پسینے چھوٹ رہے ہیں،جو ویڈیو گیم کے بونے کی مانند بڑھ چڑھ کر طالبان پر حملے کر رہے ہیں، نہ ان فاشسٹوں نے کبھی نماز پڑھی نہ انہیں مصلے پر بیٹھ کر امن و امان کی دُعا مانگنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ اگر طالبان سے اتنا ہی خوف ہے تو بہتر ہو گا اس معاملے میں نہ اُلجھیں۔ یہ کوئی پاک ٹی ہاﺅس میں کامریڈ کامریڈ کرتے سرخوں کی محفل نہیں،یہ وزیرستان کا معاملہ ہے، وہ وزیرستان جسے موجودہ دور میں دنیا کا خطرناک ترین علاقہ گنا جاتا ہے اور جہاں بسنے والوں کو دنیا ون سیکنڈ لائف جنگجوﺅں سے تعبیر کرتی ہے۔ جنگجو مر تو جاتے ہیں زبردستی ہتھیار کبھی نہیں پھینکتے۔ انہیں رام کرنے کا واحد طریقہ متعلقہ علاقوں میں صنعت، کاروبار اور روپے پیسے کی ریل پیل ہے۔ کیا چائنہ سنکیانگ میں یہ کرنے نہیں جا رہا؟ حکومتی مذاکراتی ٹیم وزیراعظم کو یہ تجویز بھی پیش کرے کہ اپنے ان برادر ملکوں کو وزیرستان کی ترقی کے لئے بیل آﺅٹ پیکیج پر آمادہ کرے، جنہیں محفوظ رکھنے کی خاطر پاکستانی قوم دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔