ایک اور جیت+عمر اکمل ہمت ہار گئے؟
کرکٹ میلہ جاری ہے کل (ہفتہ) بنگلہ دیش میں ایشیا کپ کا فیصلہ ہو گا کہ پاکستان اپنا اعزاز برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے یا پھر اس بار سری لنکن ٹیم کپ لے جائے گی۔ حالیہ کارکردگی سے تو یہ امید بندھ گئی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم یہ سیچ جیت کر پھر سے ایشین چیمپئن بن جائے گی۔ بنگلہ دیش میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں ہر کھلاڑی اہم اور ہیرو ہے۔ بوم بوم شاہد آفریدی کو گیند نظر آنے لگی اور وہ اپنی فارم میں واپس آ گئے ہیں، جو بہت خوش آئند ہے، کیونکہ آفریدی چلتا ہے تو پاکستان جیتتا ہے۔ بھارت کے ہاتھوں میچ چھین لینا ہی بڑا کارنامہ تھا کہ بنگلہ دیش پر بھی آفریدی چل گیا، لیکن یہ امر فراموش نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت کے خلاف جنید خان نے رن بنایا اور وہی کارگر ثابت ہوا کہ آفریدی کو چھکے پر چھکا لگانے کا موقع مل گیا، بھارت کے سپورٹس چینل پر سابق بھارتی کھلاڑی جہاں یہ کہہ رہے تھے کہ آفریدی بھارتی ٹیم کے ”کھیسے“ (جیب) میں سے میچ لے گیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی شور مچایا کہ جنید خان کو ایک رن بنانے کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا کہ اس طرح آفریدی سامنے آ گئے۔کہنے کا مطلب یہی ہے کہ ہر کھلاڑی اپنی جگہ اہم ہے اور ان میں عمر اکمل بھی شامل ہے جو بلاشبہ سٹار ہے اس نے بھی تو افغانستان کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں دبی ٹیم کو اتنا سکور کرنے میں مدد دی جو پاکستان کرکٹ ٹیم کو بونس کا ایک پوائنٹ بھی دلانے کا ذریعہ بن گیا۔ عمر اکمل نے سنچری بنا کر سکور اونچا اٹھا دیا تھا بلاشبہ وہ ہیرو ہے۔
کھیل ہو یا کوئی ہنر مندی کا کام، ان میں ذہنی سکون اور ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے عمر اکمل کو بھی یہ سکھ چاہئے لیکن وہ تو دہائی دینے پر مجبور ہو گیا۔ اب خبر یہ ہے کہ اس نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ ٹریفک وارڈن سے اس کی جان چھڑائی جائے۔ عمر اکمل کو ایشیا کپ کے بعد ورلڈکپ ٹی20 میں بھی حصہ لینا ہے جو 16مارچ سے شروع ہو رہا ہے۔ ادھر یہ ذمہ داری ہے، تو یہاں لاہور میں علاقہ مجسٹریٹ نے اس کی حاضری کے لئے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہوئے ہیں۔ عدالت میں پیشی والی تاریخ پر عمر اکمل بنگلہ دیش میں قومی ٹیم کے ساتھ ایشیا کپ میں حصہ لے رہا تھا اور ادھر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس روز عمر اکمل کے وکیل بھی پیش ہوئے یا نہیں اور اگر پیش ہوئے تو کیا انہوں نے درخواست کی تھی کہ عمر اکمل کو استثنیٰ دیا جائے، وہ قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بنگلہ دیش میں ہے۔ بہرحال وارنٹ جاری ہو گئے اور عمر اکمل کو لاہور آ کر عدالت میں پیش ہونا ہے۔ اب عمر اکمل نے وزیراعظم سے اپیل کر دی اور اس نے درخواست کی ہے کہ اس کی جان ٹریفک وارڈن سے چھڑائی جائے، کتنا معصوم اور بھولا ہے عمر اکمل بھی، کہ جان چھڑوانے کی بات کر رہا ہے، حالانکہ وارڈن تو صرف ایک مہرہ ہے جس نے چالان کے عوض جھگڑا کیا اور پھر عمر اکمل کو حوالات کی سیر کرنا پڑی، بھولا ہے، اسے یہ اندازہ نہیں ہوا، ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر تو یہ سب نہیں ہوتا جو عمر اکمل کے ساتھ ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سب ٹریفک وارڈن کے بس کی بات نہیں۔
یہ تو کسی صاحب اختیار کی اَنا کا مسئلہ بن گیا ہوا ہے، اس لئے اُسے بھی قانونی اور آئینی تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور یہ اِسی طرح ممکن ہے جیسے ڈرائیونگ لائسنس کی منسوخی کے خلاف درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اور اس طرح اسے لائسنس کی منسوخی کے عمل میں وقت تو مل ہی گیا ہے۔ اس لئے اُسے یا اُس کے والدین کو بہتر وکیل کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں کہ ریلیف بہرحال عدالت سے ملنی ہے، ویسے اس سارے معاملے کو تعجب سے ہی دیکھا جا رہا ہے کہ ایک قومی کھلاڑی کی ایک غلطی کا خمیازہ اسے کیسی کیسی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے کہ اب اُس نے ہتھیار ہی پھینک دیئے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم سے مدد کی اپیل کے باوجود اسے مقدمہ کا دفاع تو کرنا ہی ہے اور اگر وہ انصاف سے مایوس ہے تو پھر اسے یہ مسئلہ بھی عالت عالیہ تک ہی لے جانا ہو گا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ عمراکمل کے والدین نے ٹریفک وارڈن کے ساتھ مصالحت کی کوشش شروع کر دی اور رابطہ کیا۔ شاید ایسے ہی مشکل آسان ہو۔
بات کرنا تھی بنگلہ دیش کے خلاف فتح کی، پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے حیران کر دینے والے معرکے پہلی بار ہی انجام نہیں دیئے ، اس سے پہلے بھی ایسا کیا جا چکا ہوا ہے اور اب تو یہ بات پاکستان ٹیم کا نشان بن گئی کہ یہ حیران کر دینے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں شاہد آفریدی کی تعریف واجب! لیکن احمد شہزاد اور فواد عالم کو کیوں بھولتے ہو اور حفیظ کی اوپننگ کس کھاتے میں جائے گی۔ حفیظ اور احمد شہزاد نے تحمل سے مقابلہ کیا اور کامیاب بھی رہے۔ اس کے بعد اگر احمد شہزاد نے تیز کھیلا تو فواد عالم نے بھی حق ادا کر دیا اور اپنی خداداد صلاحیت کا بھی مظاہرہ کر دیا، داد بھی وصول پائی۔ اس کے جوہر کھل گئے۔ سبھی تعریف کر رہے ہیں، لیکن جو تحسین سابق کپتان راشد لطیف نے کی وہ سب سے الگ ہے، وہ کہتے ہیں میرا مین آف دی میچ فواد عالم ہے۔ تعریف بجا، لیکن خیال رہے کہ راشد لطیف اب ٹیم کے چیف سلیکٹر ہیں، ورلڈکپ ٹی20 تک کے لئے جو ٹیم بن گئی وہ بن گئی اب تو اگلا مرحلہ اس وقت آئے گا جب یہ ٹورنامنٹ مکمل ہو گا اور اس کے بعد کسی اور مرحلے کے لئے ٹیم کے چناﺅ کا مرحلہ آئے گا۔ اس وقت راشد لطیف بااختیار ہوں گے۔ ہمارے خیال میں اس ایک میچ کے کھیل کی اس حد تک تعریف سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کو نہیں کرنا چاہئے کہ پہلے ہی ذہن کا علم ہو جاتا ہے۔ فواد عالم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو وہ ٹیم کے لئے تھی اور اسے اس کا اجر ضرور ملے گا اور ٹیم کا مستقل رکن بن جائے گا۔ راشد لطیف کو بہت محتاط رہنا ہو گا، ہماری تجویز تو یہ ہے کہ وہ بیان بازی ہی سے گریز کرے اور کم سے کم بولے، اس سے عزت ہی میں اضافہ ہو گا۔
قوم کی دُعائیں ساتھ ہیں اللہ پر بھروسہ ہے، ٹیم کامیابی سے اپنے دفاع کا فرض انجام دے لے گی اور کل (ہفتہ) کی رات تک یہ فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔