دہشت گردی اور پاکستان، اب مزید ساتھ نہیں چل سکتے
کیا ہم ایک جمود کا شکار ہیں ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنا چاہئے مگر نجانے کیا جادو ہے کہ آگے بڑھ ہی نہیں پا رہے۔ قوموں کی زندگی میں ویسے تو چیلنج آتے ہی ہیں لیکن ہمیں جن چیلنجوں کا ہر دور میں سامنا رہا ہے۔ وہ ہمارے گلے پڑتے رہے ہیں۔ چیلنجوں سے نمٹ کر آگے بڑھا جائے تو مشکلات پیش نہیں آتیں لیکن اگر چیلنجز آسیب کی صورت چمٹ کر رہ جائیں تو قوم بھی ایک طرح سے معلق زندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ میں 66 برسوں میں قوم کو درپیش چیلنجوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ وہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں، تاہم میں آج کے سب سے بڑے چیلنج یعنی دہشت گردی کا ذکر کر رہا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اُسے بھی ایک خاص مقصد کے تحت پاکستان میں ہوا دی گئی تھی اور اُس میں بیرونی ہاتھ موجود تھا۔ میں سمجھتا ہوں اسے ہمارے اتحاد و یکجہتی نے ناکام بنایا۔ عوامی سطح پر شیعہ سنی جھگڑا کبھی بھی کھڑا نہیں ہوا جبکہ خفیہ ہاتھوں کی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا مقصد یہی تھا کہ مذہبی کشیدگی کو ہوا دی جائے۔ جب وہ بیل منڈھے نہ چڑھی تو دہشت گردی بھی ٹارگٹ کلنگ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ گویا یہ چیلنج تو عوام نے اپنے بے پناہ شعور اور اتحاد سے قبول کیا اور اس میں سرخرو ہوئے۔ آج اس حوالے سے کارروائیوں کا دائزہ بہت محدود ہو چکا ہے۔ تاہم جو دہشت گردی نائن الیون کے بعد شروع ہوئی، اس نے ہمیں آج تک چین نہیں لینے دیا یہی ہمارا آج کا سب سے بڑا چیلج ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
جس طرح کہا جاتا ہے کہ فرد ساری زندگی اپنے اعمال کے نتائج ہی بھگتتا ہے، اُسی طرح قوم کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ ہماری ماضی و حال کی قیادتوں نے جو فیصلے کئے اُس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ ہم نے دنیا کو تسخیر کرنے کا جو ٹھیکہ اپنے تئیں لے لیا تھا۔ اُس نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ آج جن دہشت گردوں سے ہم مذاکرات کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، کل ہمارے ہی ہاتھوں نے ان بتوں کو تراشا تھا۔ ہمارے ادارے من مانی کرنے کی جو روش رکھتے ہیں، اُس کی وجہ سے وہ سب کچھ ہوتا رہا، جو ایک نہ ایک دن ہمارے لئے پریشانی کا باعث بننا تھا۔ ایک ایسا ملک جو شروع دن سے آج تک معاشی لحاظ سے مستحکم نہیں رہا، وہ ہمیشہ سے مہم جوئی کا حصہ رہا ہے عالمی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ہم نے اپنے وجود میں کتنی دراڑیں ڈال لی ہیں۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو سوائے ایک حسرتِ ناکام کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ جس افغانستان کو روس کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہم نے مجاہدین کی فیکٹری لگائی تھی، وہ افغانستان تو آج ہمارے امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے کیوں کہ سارے دہشت گرد وہیں پناہ لیتے ہیں۔ دونوں بار ہم امریکہ کے ہاتھوں افغانستان کو فتح کرنے کے لئے استعمال ہوئے۔ ایک بار اس نے روس کے خلاف ہمیں استعمال کیا اور دوسری بار القاعدہ اور طالبان کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے ہمیں اُس میں شرکت پر مجبور کر دیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ پرائی جنگ تھی جسے ہمارے فوجی حکمران نے اپنا اقتدار بچانے اور ایک مرتبہ پھر ڈالرز کی برسات میں نہانے کے لئے اپنی جنگ بنا لیا۔ قوم کو آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن اس قسم کی جنگوں اور پالیسیوں کی وجہ سے قوم کولہو کا بیل بن کر رہ گئی۔ وہ دو قدم آگے بڑھاتی تو تین قدم پچیھے چلی جاتی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں قوم کو جھوٹی خوشحالی دے کر دہشت گردی کی ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا کہ جس سے نکلنا اب سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
یہ اعتراض تو بہت کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت آنے کے باوجود خوشحالی نہیں آئی، حالات بہتر نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی پر سب سے بڑا الزام ہی یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ 5 برسوں میں کچھ نہیں کر سکی۔ مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور بدامنی کی موجودگی میں کوئی حکومت کیا کر سکتی ہے۔ جہاں امن و استحکام نہ ہووہاں سرمایہ کاری ہوتی ہے نہ خوشحالی آ سکتی ہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، موجودہ منتخب حکومت اگر اپنے پہلے 9 ماہ میں کچھ نہیں کر سکی تو اس کی وجہ کسے معلوم نہیں۔ جب وزیر اعظم اور حکومت کا سارا وقت اسی گتھی کو سلجھانے میں صرف ہوگا کہ ملک میں امن کیسے قائم کیا جائے دہشت گردوں سے کیسے نمٹا جائے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کام کے لئے اتفاقِ رائے کیونکر پیدا کیا جائے، تو کوئی بتائے کہ قوم کی ترقی و خوشحالی کے بارے میں سوچنے کی نوبت کب آئے گی۔ پچھلے کچھ عرصے سے پورا ملک طالبان حکومت مذاکرات میں اُلجھا ہوا ہے۔ سٹاک مارکیٹ اسی کے حوالے سے چڑھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر گرتی ہے مذاکرات میں تھوڑی سی پیش رفت ہوتی ہے تو دہشت گردی کا کوئی واقعہ پھر ایک نئی رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ کچھ طاقتیں مذاکرات سے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں تو کچھ کا خیال یہ ہے کہ طاقت کی زبان میں بات کی جانی چاہئے۔ یہی دو عملی ہماری ریاستی طاقت کو کمزور کر رہی ہے اور ایک طرح سے اُن دہشت گردوں کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے، جنہوں نے پوری ریاست کو یرغمال بنا لیا ہے۔ میرے ذہن میں رہ رہ کر یہ بات آتی ہے کہ ہمیں چیلنج اتنا بڑا درپیش نہیں البتہ اُس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہم میں جو صلاحیت ہونی چاہئے، اُس کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ فقدان بھی آج کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے بہت دور تک نظر آتے ہیں۔ چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت ہوتی تو دہشت گردی کے اس عفریت کو اس طرح پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا جاتا۔ ہر حکمران اس سے نظریں چرا کر آگے نہ بڑھتا بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا۔
ہر تاریک صورتِ حال میں کچھ روشن پہلو بھی ہوتے ہیں۔ آج جہاں اس بات پر بہت تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے اور دہشت گردی کی وارداتوں کے باوجود اس آپشن کو استعمال کرنے سے باز نہیں آ رہی تو میں اس میں امید اور بہتری کا پہلو یہ نکالتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے کم از کم اس مسئلے کو ایک ایجنڈے کی شکل دے کر اُس پر کام تو شروع کیا ہے۔ وگرنہ محمد نوازشریف بھی پیپلزپارٹی کی حکومت جیسا رویہ اختیار کر کے ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد ایک مذمتی بیان جاری کرتے اور اپنا کام جاری رکھتے۔ انہوں نے اس مسئلے کو اپنی حکومت کی ترجیحات میں شامل کر کے اسے حل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اُس کے لئے اُنہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، وہ کارگر بھی ثابت ہو سکتی ہے اور ناکام بھی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب حالات کو جوں کا توں رکھنے کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ کیا عجب کہ جو بات اس وقت حکومت کی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے وہی کارآمد نتائج لائے، جیسا کہ آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہا ہے کہ طالبان اب وضاحتوں پر اتر آئے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے اس عمل کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گروپ علیحدہ نظر آئیں جو طالبان کے کنٹرول میں نہیں اور جن کے لئے ریاستی طاقت استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔
ہماری قومی زبوں حالی کا ایک بڑا سبب یہی رہا ہے کہ ہم حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ان سے نظریں چراتے ہیں آپ کالا باغ ڈیم کی مثال ہی دیکھ لیں ہر حکومت اُسے سرد خانے میں ڈال کے اپنے دن پورے کرتی رہی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ قومی اہمیت کا یہ سب سے بڑا منصوبہ شروع نہیں ہو سکا اور ہم پانی و بجلی کے حوالے سے بدترین بحران کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔ لیڈر شپ وہی کامیاب کہلاتی ہے جو چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے خم ڈھونک کے میدان میں آئے۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اگر دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے تو اب اُنہیں اسے پایہ تکمیل تک ضرور پہنچانا چاہئے۔ مذاکرات کا آپشن سبھی کی پہلی ترجیح ہے، تاہم اگر یہ آپشن کامیاب نہیں ہوتا یا بے معنی طول پکڑتا ہے اور دہشت گردی بھی جاری رہتی ہے، تو پھر ایک مکمل اور بڑے آپریشن سے دریغ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ دہشت گردی اور پاکستان اب مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔