مذاکرات: امید کی روشنی اور دشمن کی گھاتیں
حکومت اور طالبان کی مذاکرات کمیٹیوں کی دوبارہ ملاقات کے بعد تین ہفتے قبل امن کے عمل میں پیدا ہونے والا تعطل ختم ہوا اور مذاکرات بحال ہو گئے ہیں۔ دونوں ٹیموں میں مذاکرات کی کامیابی کے لئے موثر لائحہ عمل تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ طالبان رابطہ کمیٹی کی جمعرات کو وزیر اعظم سے ملاقات بھی ہوگئی۔ اکوڑہ خٹک میں دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فائر بندی کے اعلان اور بعد کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی، دونوں کمیٹیوں نے اس عمل پر اطمینان کا اظہار کیامذاکراتی عمل ایک اہم اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے کہا ہے کہ مذاکرات کا نیا مرحلہ زیادہ موثر، مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔کمیٹی اپنی اس تجویز سے وزیراعظم کو بھی آگاہ کر چکی ہے کہ نیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور محدود مدت میں بہتر نتائج حاصل کئے جائیں۔ طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کی تجویز سے مکمل اتفاق کیا۔ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے کو مکمل امن کی منزل تک لے جانے کے لئے زیادہ موثر اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ طالبان کمیٹی نے وزیراعظم سے ملاقات کے لئے کہا ہے تاکہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے اور نئی حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا جا سکے۔
مولانا سمیع الحق نے کہاکہ دونوں کمیٹیوں کی کوشش سے ایک مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ فریقین نے جنگ بندی کا اعلان کیا یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے کہہ دیا تھا کہ ہماری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے سازشیں ہوں گی، دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا کہ مذاکرات منطقی انجام تک نہ پہنچیںاور پاکستان میں امن نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ اسلام آباد کے وقت سب نے دیکھا کہ طالبان نے بار بار لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ہمیں ہرواردات طالبان کے کھاتے میں نہیں ڈالنی چاہئے۔ ملک دشمن ایجنسیاں، امریکہ ، بھارت اور افغانستان مذاکرات کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ مََیں نے حکومت اور طالبان سے کہا ہے کہ دونوں ایک پیج پر آ کر دشمن کی نشاندہی کریں۔ وزیراعظم نے بڑے حوصلے کا ثبوت دیا ہے۔ کئی داخلی اور خارجی قوتیں مذاکرا ت نہیں چاہتیں۔ ہمارا آپشن صرف مذاکرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مذاکرات کو مزید موثر بنانا چاہئے، جس سے کمیٹیاں فیصلہ کن پوزیشن میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک و قوم اور فوج کے ہمدرد ہیں۔ آپریشن سے بے گناہ بچے اور عورتیں دربدر ہوں گی۔ آپریشن کسی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ مذاکرات کا دروازہ ہم نے کھولنا تھا وہ کھل گیا، اب حکومت اور طالبان اور مقتدر طاقتوں نے مل کر مسئلے کو حل کرنا ہے۔
مذاکراتی کمیٹیوں کی طرف سے پہلے مرحلے میں مثبت نتائج حاصل کر لئے گئے ہیں، لیکن دشمن کی طرف سے اسلام آباد کچہر ی کے علاوہ اب کرم ایجنسی میں بھی فوجی قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا ہے، جس سے چھ جوان شہید اور آٹھ زخمی ہو گئے ہیں، جس کی ذمہ داری انصار المجاہدین نامی تنظیم نے قبول کی ہے اور کہا ہے کہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند ہونے تک فورسز کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ بعض لوگوں نے انصار المجاہدین کے طالبان کے زیر اثر ہونے کا الزام دیا ہے، جبکہ دوسری طرف سے اس تنظیم کی ذمہ داری قبول کرنے والے ذریعے کو ناقابل اعتماد قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد حملہ کے سلسلے میں تحقیقاتی ایجنسیوں کو طالبان کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد طالبان کے مزاج اور طریق کار کو سمجھنے والے مبصرین یہ پختہ رائے ظاہر کر رہے ہیں کہ اب ان کی طرف سے کم از کم ایک ماہ تک کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اُدھر وزیراعظم نے طالبان سے مذاکرات کے لئے نئی ٹیم تشکیل دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔ نئی ٹیم عسکری قیادت سے مشاورت کے بعد تشکیل دی جائے گی۔ مذاکرات کا دوسرا مرحلہ نئی جامع مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے بعد شروع ہو گا۔ نئی ٹیم میں خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ کوبھی شامل کئے جانے کی توقع ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے گوجرانوالہ کے ارکان پارلیمنٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا راستہ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کے مطابق اختیار کیا گیا ہے امید ہے یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ملک میں امن آئے گا۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کی اکثریت امن چاہتی ہے، لیکن اب نئے نئے دہشت گرد گروپ سامنے آ رہے ہیں، ان کے سلسلے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو تحقیق کرنے کے لئے کہہ دیا ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں نے اسلام آباد کے علاقے سے دو بھارتی دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے،جبکہ بارہ کہو اور آر اے بازار دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ مارا گیا ہے۔ اس کے علاوہ درہ سے اسلحے کی کھیپ لاہور منتقل کرنے کو کوشش ناکام بنا دی گئی ہے اور دو دہشت گرد گرفتار کر لئے گئے ہیں۔
موجودہ حالات میں حکومت کی طرف سے جوں جوں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوششیں بڑھ رہی ہیں، دشمن بھی اپنا ہر اوچھا وار ہم پر آزما رہا ہے۔ ہم اپنے بگڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لا سکیں، تو اس کے بعد دشمن کے پھیلائے ہوئے جال کو توڑنا اور ہر ملک دشمن کو قانون کے شکنجے میں لانا ہمارے لئے مشکل نہیں ہو گا۔ یہی پریشانی ہمیں کمزور اور بے حال کرنے کی کوشش میں مصروف دشمن کو درپیش ہے، جس کے پیش نظر وہ اتنی ہی تیزی سے اپنے تمام حربے آزما رہا ہے، جتنی تیزی سے ہم امن کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سارے کام میں مشکلات کا پیش آنا ایک قدرتی امر ہے۔ ایک طویل عرصے تک ملک کے اندرونی امن کو جس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، کراچی اور دوسرے مقامات پر جس طرح مختلف سیاسی جماعتیں اپنے عسکری ونگز تیار کرتی اور ان کی سرپرستی کرتی رہی ہیں، فرقہ پرستی اور نسلی و علاقائی تعصبات کو بھڑکا کر اپنی سیاسی پوزیشنیں مضبوط کرنے والے اور جرائم پیشہ لوگوں کو اپنی طاقت کی بنیاد بنانے والے لوگوں نے اپنی خود غرضی سے جس طرح حالات بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اس سب کچھ کی آڑ میں ہمارا دشمن بھی ہماری صفوں میں گھس کر تخریب و دہشت کے لئے اپنا کام مکمل کرتا رہا ہے۔
سیاسی گروہوں اور عوام کو صبر سے کام لینے اور حکومت کی طرف سے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری کامیابیوں کے ساتھ ہماری مشکلات اور مصائب بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے لئے ہمارے نام نہاد لیڈروں کی پیدا کردہ آزمائشیں کچھ کم نہیں ہیں۔ تاجروں، ملازموں ، آجروں ، مزدوروں ، طالب علموں اور کسانوں ہر کسی کو اپنی اپنی جگہ موجودہ حالات کو سنبھالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کے لئے یہ حالات بے حد محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کے متقاضی ہیں۔ پولیس کے لوگوں کو بھی وطن کے ان کڑے حالات میں اپنی پوری توانائیوں اور صلاحیت کے ساتھ قومی خدمت اور قوم کے تحفظ کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بھی بے حس ہو کر بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ محض تنقید اور گروہی مفادات کی سوچ اس موقع پر قومی تباہی کی سوچ ہو گی۔ ہمیں قومی بقاءاور سلامتی کے لئے قومی اتحاد اور یکجہتی کی فکر کرنا ہے اور اتحاد اور یگانگت کے راستے تلاش کرنا ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت اگر کسی بھی طرح کے بیرونی دباﺅ کے بجائے صرف قومی مفادات کے پیش نظر فیصلے کرنے پر ڈٹ جائے اپنے عوام کے مفاد کو ہر حال میں عزیز جانے تو پھر کسی بھی طرح کے دباﺅ اور سازشیں قوم کو اس مشکل سے سرخرو ہو کر نکلنے میں مزاحم نہیں ہو سکیں گی۔
ادھر قومی اسمبلی میں قومی سیکیورٹی پالیسی پر بحث کے دوران اراکین نے طالبان سے مذاکرات کے کامیاب نہ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے یکجا ہونا ہو گا اور دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی، پیپلز پارٹی نے طالبان سے مذاکرتی عمل میں فوج کو شامل کرنے کی مخالفت کر دی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے قومی سلامتی کے معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کا واقعہ انٹیلی جنس اداروں کی مکمل ناکامی ہے۔ فوج کو مذاکرات کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
یہ منطق کہ فوج کو مذاکرات کا حصہ نہیں ہونا چاہئے ایک انوکھی منظق ہے، جہاں فوجی آپریشن کی بات کی جاتی ہے وہاں فوج سے اس کے لئے مشاورت بھی کی جائے گی، جہاں صلح اور جنگ بندی کا معاملہ ہو گا وہاں فوج کو مشاورت اور مذاکرات میں شامل کئے بغیر سب کچھ کیسے طے ہو گا؟ اس وقت جبکہ قوم اندرونی سطح پر خود پر حملوں کا شکار ہے فوج کو سرحدوں کی حفاظت کے لئے کیسے بھیجا جا سکتا ہے ؟ کیا ان لیڈروں کی طرف سے یہ سب کچھ مذاکرات کے عمل کو بے مقصد اور بے اثر بنانے کے لئے کہا جا رہا ہے؟ محمود اچکزئی کی طرف سے قومی سلامتی کے معاملے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز بھی معنی خیز ہے۔ اس موقع پر جبکہ طالبان سے مذاکرات نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہونے جا رہے ہیں اور دشمن ان کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، یہ لوگ اس طرح کی باتیں کر کے کس کو مضبوط بنارہے ہیں۔ کیا کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی ) کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے حکومت کو دیا گیا مینڈیٹ حکومت کے اس سلسلے میں آگے بڑھنے اور عسکری قیادت کے ساتھ ہم قدم ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟