تحریر:چوہدری خادم حسین امریکہ، افغانستان اور بھارت ذمہ دار؟
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف موجودہ اقتدار ملنے اور انتخابات سے پہلے ہی بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت پر جوش تھے اور انہوں نے نیو یارک میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران ان کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی جو قبول کر لی گئی جوابی طور پر میاں محمد نواز شریف بھی مدعو کئے گئے۔ وہ وقت اور آج کا دن یہ دورے ہو ہی نہیں پا رہے، بلکہ اب تو واضح ہو گیا کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اپنے مقدس مقامات پر ماتھا ٹیکنے کی خواہش سابق وزیر اعظم کی حیثیت ہی سے پوری کر سکیں کہ ان کی طرف سے ان کے وزیر تجارت کے اس بیان کے بعد کہ من موہن سنگھ بھارتی انتخابات سے پہلے پاکستان کا دورہ کریں گے امید بندھ گئی تھی لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ ایسا پروگرام نہیں بنا اور نہ ہی بننے کی توقع ہے۔ اب تو صورتحال ہی تبدیل ہو گئی کہ بھارتی چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا جو نومراحل میں ہوں گے اور اپریل سے شروع ہو کر مئی میں مکمل ہوں گے 16مئی سے گنتی شروع ہو گی اور پھر فیصلہ ہو جائے گا۔
پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے اپنی خوشی کو مایوسی میں تبدیل ہوتے دیکھ کر یہ جبرواکراہ کہہ دیا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینے کا فیصلہ ختم کر دیا گیا کہ بھارتی سلوک اچھا نہیں بھارت پاکستان سے برآمد کی جانے والی اشیاءپر ٹیکسوں میں کمی یا ان کو ختم کرنے پر رضامند ہیں۔ یہ خرم دستگیر وہ ہیں جو دہلی گئے تو کسی اور کام سے تھے لیکن تجارت کے حوالے سے بہت پرجوش ہو کر نعرہ لگا بیٹھے دونوں ممالک کے درمیان چوبیس گھنٹے تجارت ہو گی اور اب وہی وزیر موصوف نئی کہانی بیان کر رہے ہیں کہ بھارت نے وعدے کے باوجود ٹیکس ختم اور کم نہیں کئے، سو یہ معاملہ بھی کچھ دنوں کے لئے سرد خانے میں چلا گیا ختم نہیں ہوا کہ وزیر اعظم پھر سے نئی امید لگا لیں گے۔
یہ یوں یاد آیا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم کی طرف سے طالبان رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی ملاقات والی خواہش پوری کر دی، دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کو ناشتے پر بلا لیا، مولانا سمیع الحق کے لئے میاں صاحب کا ناشتہ نیا تو نہیں آئی جی آئی کے دور میں وہ بار بار مستفید ہو چکے ہوئے ہیں تاہم اس کی نوعیت مختلف اور اہم تھی کہ یہ ناشتہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے تھا، اسی ناشتہ میٹنگ کے حوالے سے میزبان مولانا سمیع الحق یہ بات آئی کہ امریکہ،بھارت اور افغانستان نہیں چاہتے کہ طالبان سے پاکستان کی مصالحت ہو، یہ بھی میٹنگ ہی کے حوالے سے چھپا ہے کہ بھارتی کی خفیہ ایجنسی را پاکستان میں سرگرم ہے اب اگر حکومتی ذرائع یہ کہتے ہیں تو پھر پسندیدہ ترین قوم والا مسئلہ کیا معنی رکھتا ہے۔ اس لئے اسے موخر ہی جانا جائے۔
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو مولانا سمیع الحق کے بقول وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ وہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے آپریشن سے ہرممکن گریز کے خواہش مند ہیں، اب یہی مولانا راوی ہیں کہ طالبان سے رابطہ ہو چکا، کمیٹی میں توسیع کا فیصلہ ہو گیا اور دو روز کے اندر یہ فیصلہ بھی کر لیں گے کہ مذاکراتی ٹیم وزیرستان جائے۔ ناشتہ میٹنگ اور مولانا سمیع الحق کے بیان سے بالکل واضح ہو گیا کہ حکومت مصالحت کے لئے آخری حد تک جائے گی اور اس میں اسلام آباد والی دہشتگردی اور اس کے بعد گزشتہ روز کرم ایجنسی میں ایف سی پر حملہ اور اس میں چھ جوانوں کی شہادت اور درجن بھر سے زیادہ زخمی ہونے کا واقع بھی حائل نہیں ہو گا، مولانا سمیع الحق نے بمشکل کہا کہ طالبان سے سیز فائر کے اعلان کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ کرم ایجنسی (ہنگو) حملے کی ذمہ داری انصار المجاہدین نے قبول کی اور یہ تنظیم کالعدم تحریک طالبان کا حصہ ہے اس سے ایک مرتبہ پھر ظاہر ہو گیا کہ کالعدم تحریک طالبان کا تمام گروپوں حتیٰ کہ اپنے اتحادیوں پر بھی کنٹرول نہیں۔ ایسے میں اگر مولانا سمیع الحق پر یقین ہیں اور وزیر اعظم بھی مذاکرات ہی کی طرف جارہے ہیں تو یقینا ان کو بیرونی تعاون حاصل ہو گا۔
ان تمام تر حالات میں مایوسی تو ہوتی ہے اس کے باوجود جو حضرات برسر اقتدار ہیں ان کے اقدامات کو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ بہرحال انتظار کریں شاید کوئی مثبت پہلو سامنے آ جائے۔
امریکہ، افغانستان اور بھارت