پنجاب اسمبلی کا اجلاس ، حکومت پہلے روز ہی ’بولڈ‘ ہوگئی

پنجاب اسمبلی کا اجلاس ، حکومت پہلے روز ہی ’بولڈ‘ ہوگئی
پنجاب اسمبلی کا اجلاس ، حکومت پہلے روز ہی ’بولڈ‘ ہوگئی
کیپشن: assembly

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور ( نامہ نگار خصوصی) پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز ہی حکومت قانون سازی ، کورم اور،محکموں پر گرفت او پارلیمانی سیکرٹریوں کے اہلیت پر بولڈ ہو گئی جسے وزیرقانون نے بچانے کی کوشش کی جو ڈپٹی سپیکر کیے احکامات نے ناکام بنادی۔ محکمہ داخلہ کی یہ’ داخلی‘ حالت جمعہ کی شام صرف دوگھنٹے بائیس منٹ کی تاخیر سے شروع ہونے والے پنجاب اسمبلی کے ساتویں اجلاس میں وقفہ سوالات میں سامنے آئی جب وزیراعلیٰ کے محکمہ داخلہ پارلیمانی سیکرٹری مہر اعجاز احمد اچلانہ ایوان کو مطمین نہ کرسکے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ محکمہ داخلہ کے اہم ادارے پولیس کی طرف سے انہیں جیسے جواب دیے گئے ہیں وہ ان ککے مطابق ایوان میں بات کررہے ہیں جبکہ وہ بعض سوالوں کے جوابات پر خود بھی مطمئین نہیں تھے اس لئے واپس بھجوا دیے ۔ جس پرحکومت اور اپوزیشن کے اراکین نے محکمہ داخلہ کو آڑے ہاتھوں لیا جبکہ ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی نے محکمہ داخلہ کی طرف سے اراکین کے سوالوں کے غلط جواب دینے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سوالات معرض التواءمیں رکھتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری کو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کردی، محکمہ داخلہ سے متعلق سوالوں کے مبہم اور نامکمل جواب دینے پراس محکمہ پارلیمانی سیکرٹری مہر اعجاز احمد اجلانہ نے بار بار کیا کہ انہیں محکمہ کی طرف سے واضح جواب فراہم نہیں کیے گئے تو سپیکر نےیہ سوال معرضِ التوا میں رکھ لئے جبکہ آٹھ سے زائد سوالوں کے بروقت ، غیر واضح غلط یا قطعی طور پر جواب داخل کرنے کا سخت نوٹس لیا،سپیکر نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایوان مقدس ہے اس کے تقدس کا تقاضا اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح جواب دیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، حکومتی اراکین میاں نصیر احمد، راحیلہ خادم حسین، اپوزیشن اراکین احسن فتیانہ، میاں اسلم اقبال، عامر سلطان چیمہ، وقاص حسن موکل نے محکمہ کے رویے پر کڑی تنقید کی، وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ پارلیمانی سیکرٹری نے نیا نیا چارج سنبھالا ہے انہیں تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جائے تو سپیکر نے واضح کیا کہ پارلیمانی سیکرٹری کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی محکمہ داخلہ کے بارے میں بات کی گئی ہے، واضح رہے وزیراعلیٰ شہباز شریف اس محکمے کے سربراہ ہیں، حکومتی رکن راحیلہ خادم حسین نے محکمہ کے غلط اور مبہم جوابات میں گھرے پارلیمانی سیکرٹری سے رہزنی اور ڈکیتی میں فرق اور تعریف بھی پوچھی، میاں نصیر اللہ احمد نے بھی ایسے ضمنی سوال کیے جن کے جواب پارلیمانی سیکرٹری نہیں دے سکے، میاں اسلم اقبال کے سوالوں میں بھی پارلیمانی سیکرٹری پھنس کر رہ گئے اور محکمہ کے جواب کے بارے میں بتاتے رہے کہ جواب ایسے ہی ملا تھا، جواب مناسب نہیں تھا ، واپس بھیج دیا اور اب نیا جواب منگوایا ہے، بہاولپور بارے میں ڈاکٹر وسیم اختر کے سوالوں کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ اگرچہ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق جواب موصول نہیں ہوا لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ محکمہ نے جواب فراہم کیے تھے مگر تسلی بخش نہ ہونے پر واپس بھیج دیئے گئے، اراکین خاص طور پر اپوزیشن اراکین نے محکمہ داخلہ کے اس رویے پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس محکمہ کا کوئی بڑا افسر بھی یہاں موجود نہیں ہے تو سپیکر نے واضح کیا کہ وہ احکامات جاری کر چکے ہیں اسی دوران وزیر قانون ایوان میں پہنچ گئے اور انہوں نے حکومت کی پسپائی کو سنبھالا دیا، ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سیکرٹری نے محکمہ کا نیا نیا چارج لیا ہے جواب دینے میں مشکلات ہو سکتی ہیں لیکن تضحیک نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ایک سوال پر ادھر ادھر سے بہت سارے ضمنی سوالوں کے جواب یقینی طور پر مشکل کام ہے اس صورتحال میں اسمبلی کے رولز میں ترمیم مقصود ہے تاکہ ایوان میں صوبائی سطح اور کسی خاص معاملے سے متعلق سوال دریافت کیے جائیں جن کے بروقت اور جامع جواب موصول ہوںاور ان پر بحث کی جا سکے، اس سے اداروں کی کارکردگی میں مزید نکھار پیدا ہو گا، حکومت نے پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ آرڈیننس متعارف کرایا جو سپیکر نے سٹینڈنگ کمیٹی کو ریفر کردیا، اسی دوران اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی اور ایوان سے واک آﺅٹ کر گئی، کورم پورا کرنے کیلئے ایوان اور موبائل فون کی گھنٹیاں بجتی رہیں لیکن کورم پورا نہ ہوسکا جس پر سپیکر نے اجلاس کل ہفتے کو دوبجے تک ملتوی کردیا ۔ یہ امر قابلِ زکر ہے کہ حکومت کل یوم خواتین کے موقع پر خصوصی اجلاس سے قبل آج خواتین کی مناسب نمائندگی کا مسودہ قانون پیش اور کل ہفتے کو منظور کرنا چاہتی ۔ اس قانون کے تحت مختلف اداروں میں تقریباً پچیس ہزار خواتین کے فیصلہ کن حیثیت ملنا تھی جن میں کم و بیس پچیس ارکان اسمبلی کو بھی مختلف اداروں میں ایڈجسٹ کیا جانا تھا ۔ 

مزید :

لاہور -