بھگت سنگھ یاد، لیکن میاں عبدالباری فراموش؟

بھگت سنگھ یاد، لیکن میاں عبدالباری فراموش؟
بھگت سنگھ یاد، لیکن میاں عبدالباری فراموش؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برصغیر پاک و ہندکی تقسیم کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے ملکوں، پاکستان اور بھارت میں تقسیم کنندہ فرنگی سامراج نے اِن ممالک کا اقتدار جن لوگوں کے سپرد کیا تھا، اُن میں سے پاکستان میں تو بڑے زمینداروں اور انگریز سرکار کے پروردہ سر ظفر اللہ خاں قادیانی جیسے غدار اور دربارنشین شامل تھے، مگر بھارت نے اِن لوگوں کو شریکِ اقتدارکیا تھا، جنہوں نے تحریک آزادئ ہند کے سلسلے میں قید و بند اور دارو رسن کے مصائب برداشت کئے تھے۔ دونوں ملکوں میں برسر اقتدار آنے والوں کی فہرست ملاحظہ کریں، تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ تاریخ کے اوراق تحریکِ آزادی میں جاں فشانی سے کام لینے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے زریں کارناموں کے شاہد ہیں۔
آج اس موضوع پر گفتگو کا محرک فیصل آباد کی انتظامیہ کا وہ فیصلہ ہے، جس کا گزشتہ دِنوں اعلان ہوا ہے کہ تحریکِ آزادی کے ایک تشدد پسند لیڈر بھگت سنگھ کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اس کے گاؤں چک نمبر105 بنگے تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کو ’’قومی ورثہ‘‘ قرار دے کر اس کی آرائش و زیبائش کے لئے15لاکھ روپے مختص کر دیئے گئے ہیں، جس سے اس کی رہائش گاہ اور الماری وغیرہ اور دیگر سامان کی تزئین و حفاظت اور آمدو رفت کرنے والے مہمانوں کی سہولت کے لئے گاؤں جانے والی سڑک کی بھی تعمیر نو کی جا رہی ہے۔ میری نگاہ میں یہ اچھا فیصلہ ہے۔ تحریکِ آزادئ وطن کے سلسلے میں جاں فشانی سے کام لینے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بخل اور جانبداری سے کام نہیں لینا چاہئے، جبکہ یہ بات موجب حیرت ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں ایک سکھ لیڈر بھگت کو تو یاد رکھا جا رہا ہے، جس نے انگریزی حکومت کی اسمبلی میں بم پھینکا اور جس کے ساتھیوں نے لاہور میں انگریز افسروں کو قتل کیا تھا، لیکن میاں عبدالباری اور ان کے گاؤں چک نمبر122تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد جو بھگت سنگھ کے گاؤں سے ذرا آگے اسی روڈ پر واقع ہے، کو نظر انداز اور میاں عبدالباری کے سنہری کارناموں کو فراموش کیا جا رہا ہے:
تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو
جبکہ میاں عبدالباری تحریک آزادی کی وہ نامور اور ممتاز شخصیت تھے، جنہوں نے1914ء کی پہلی عالمگیر جنگ کے دِنوں میں ایم اے (عربی) کا داخلہ لینے کے باوجود اپنے پندرہ ساتھیوں (شیخ عبدالقادر، عبدالمجید خان، شیخ عبداللہ،عبدالرشید،غلام حسین، ظفر حسن ایبک، عبدالخالق، رحمت علی اور شجاع اللہ وغیرہ لاہور کے مختلف کالجوں کے سٹوڈنٹس کی رفاقت میں6جنوری1915ء کو دریائے راوی میں کشتی پر سوار ہو کر دریا کی موجوں میں قرآن کریم پر یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ تحریک آزادی کے لئے جاری تحریک جہاد میں شریک ہو کر نہایت جاں فشانی اور راز داری سے کام لیں گے۔ میاں عبدالباری پر کیا کیا مصائب اور مشکلات آئیں اور کن کن صبر آزما مراحل سے وہ گزرے، ان کے واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔19مارچ1914ء کو حریت پسندوں کا یہ قافلہ سوات اور بونیر سے گزر کر جب طویل سفر کے بعد افغانستان کی سرحد میں داخل ہوا تو ان کی ملاقات بچہ سقہ کی بغاوت میں قندھار کے گورنر آغا علی احمد سے ہوئی، وہ بظاہر مجاہدین کا حامی تھا، مگر درپردہ اس نے افغان حکومت کو ان کے عزائم سے آگاہ کر کے پولیس کے سپرد کر دیا تھا۔ کابل میں ان مجاہدین کو سیاسی نظر بندوں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا، ان کے قافلہ سالار عبدالمجید خاں اللہ کو پیارے ہو گئے، جس پر ان کے حوصلے وقتی طور پر پست ہو گئے تھے، اس عرصے میں مولانا سندھیؒ بھی کابل پہنچ گئے انہوں نے مجاہدین کا حوصلہ بڑھایا تھا۔
اسی اثناء میں میاں عبدالباری نے تحریکِ آزادی کے ایک رہنما مہندر پرتاب کو کہہ کر امیر کابل سے ملاقات کرائی،جبکہ امیر حبیب اللہ درپردہ انگریزی حکومت کا حلیف تھا، راجہ مہندر پرتاب نے اس سے مایوس ہو کر کابل میں جلا وطن حکومت کا اعلان کر دیا، جس کے وزیراعظم مولانا برکت اللہ اور میاں عبدالباری وزیر داخلہ مقرر کئے گئے تھے۔ اس عرصے میں جرمن ترک مشن کاظم بیگ کی قیادت میں کابل پہنچ گیا تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی وساطت سے میاں عبدالباری جرمن ترک وفد سے ملے، چنانچہ مولانا سندھی کی تجویز پر اس عارضی حکومت کے وفود جاپان اور ترکی، بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، پہلے مشن میں شیخ عبدالقادر اور متھرا سنگھ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور شیخ عبدالقادر کو جیل میں داخل کر دیا گیا،جو قید خانے میں ہی انتقال کر گئے تھے، میاں عبدالباری اور شجاع اللہ براستہ خشکی ایران میں داخل ہو گئے، جنہیں ایرانی پولیس نے گرفتار کر کے روسیوں کے سپرد کر دیا تھا، جنہوں نے میاں عبدالباری اور شجاع اللہ پر وحشیانہ ظلم ڈھائے، بعد ازاں انہیں بھی انگریزی حکومت کے سپرد کر دیا، وہ انہیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر کوئٹہ لے آئے، پھر میاں عبدالباری کو لدھیانہ جیل خانے میں قید کر دیا تھا۔

ایسے کئی لرزہ خیز اور سبق آموز واقعات سے میاں عبدالباری کی زندگی بھری پڑی ہے،جس کی بابت مفصل معلومات کسی دوسری اشاعت میں پیش ہو سکیں گی، یہ تمام معلومات مختلف موقر قومی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں، اس وقت جو معلومات پیش خدمت ہیں، وہ ان کے نامور فرزند میرے محترم بھائی میاں معین باری سابق رکن قومی اسمبلی اور ممتاز اہلِ قلم و مصنف کتب نے فراہم کی ہیں۔ میاں عبدالباری مولانا عبید اللہ سندھی سے باقاعدہ درس قرآن لیتے رہے اور سیاسی تربیت بھی حاصل کی تھی ۔ ان کی رفاقت میں ہجرتِ افغانستان میں بھی شریک ہوئے تھے، ان کے چند ساتھی دورانِ ہجرت اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، خود میاں عبدالباری کو فرنگی ظالموں نے گرفتار کر کے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑا تھا، حتیٰ کہ انگریز گورنر نے انہیں پھانسی پر لٹکا دینے کے احکام بھی جاری کئے تھے۔ انہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن مدرس دارالعلوم دیو بند کی تحریک عدم تعاون اور تحریک ریشمی رومال میں بھی حصہ لیا تھا، نیز سیدی و مرشدی مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے نوجوان میاں عبدالباری کی خدمات کی تحسین وستائش کی اور اچھے الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے میاں عبدالباری جمعیت علمائے ہند کے رہنماؤں کے معتمد ساتھی تھے۔ بعد ازاں وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے، پنجاب مسلم لیگ کے صدرمنتخب ہوئے تھے اور آپ ہی کے مطالبے پر پنجاب پر مسلط انگریز گورنر سر فرانسس مودی کو الگ کر دیا گیا تھا۔بعد ازاں میاں عبدالباری چودھری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان کی نظام اسلام پارٹی کے مرکزی عہدیدار بھی رہے۔ میاں صاحب پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے،مجھے لاہور میں روزنامہ ’’آزاد‘‘ کی ادارت کے دوران میاں عبدالباری سے کئی بار ملاقات اور تبادلۂ خیال کا موقع ملاہے، وہ ہمارے اسلاف کے ساتھی اور سچے محبِ رسول ؐ تھے، ان کی زندگی ’’نگاہ بلند، سخنِ دل نواز اور جاں پر سوز‘‘ کی آئینہ دار تھی۔28اکتوبر1968ء کو وہ داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے، ان کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں جڑانوالہ کا نام تبدیل کر کے باری آباد یا باری نگر رکھنا چاہئے اور بھگت سنگھ کے گاؤں کے ساتھ ساتھ میاں عبدالباری کے گاؤں چک نمبر122جڑانوالہ روڈ کو بھی قومی ورثہ قرار دے کر ان کی شایانِ شان یادگار قائم کرنے کے علاوہ میاں عبدالباری کے سنہری کارناموں پر مشتمل کتاب شامل نصاب کر کے نسلِ نو کو معلومات فراہم کرنی چاہئیں کہ میاں عبدالباری برصغیر کے ممتاز اور نامور رہنماؤں کی صفِ اول کی شخصیت اور قائداعظم ؒ کے سچے اور معتمد ساتھی تھے، ظہیر کاشمیری نے کیا خوب کہا ہے:
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

مزید :

کالم -