تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 15

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 15
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حسین و جمیل جسم لباس کی بے جا تہمت اٹھائے ہوئے ہولناک اداؤں سے سپردگی کا اظہار کرتے شوق کے سمندر میں ڈوب جانے پر آمادہ کرتے ہوئے اس کے ارد گرد رقص کرنے لگے ،منڈلانے لگے ۔کسی نے رباب اٹھالیا،کسی نے بازوؤں کے خنجر چمکا کر گھنگھرو چھیڑ دیئے ،کسی نے یاقوت کے شہتوت اس کے ہونٹوں کے سامنے کر دیئے۔کوئی اس کے تخت کے سامنے آنکھوں کے پیالے خالی کرنے لگا۔اور وہ اسی طرح بیٹھا رہا ۔
داراشکوہ کی خدمت گزارخواجہ سرا بسنت خون پٹکاتی تلوار کھینچے ہوئے اس کے سامنے آئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر غیظ سے دیکھنے لگی اور ’’غدار ‘‘کا خطاب دے کر تلوار کا وار کردیا ۔ان نے پہلو بدل لیا۔پھر اصفہان آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔صاف ستھری پتھریلی سڑکیں نکیلے گنبدوں ،چوکور میناروں اور اسپینی محرابوں کی سرخ وسیاہ عمارتیں گل چہرہ کنیزوں ،فرشتہ صورت غلاموں ،عراقی گھوڑوں ،مصری ریشم اور ہندی کم خواب کے لباسوں سے جگمگاتے بازروں کی رونق یاد آئی ۔ قصر شاہی کی شوکت ،گمشدہ ماں باپ کی محبت ،بہنوں کی لگاوٹ اور بھائیوں کی رفاقت ایک ایک چیرا اس کے سامنے آکر کھڑی ہوئی اور امان کی بھیک مانگنے لگی مگر جعفر بیٹھا رہا۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر کسی نے پٹکا پکڑ کر کھینچ لیا۔دارا شکوہ سامنے کھڑا تھا۔داراشکوہ ،ولی عہد سلطنت ۔اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور چہرہ غضب سے سرخ تھا ۔تالی بجتے ہی موت سے زیادہ بھیانک جلاد دونوں ہاتھوں میں جمدھر اٹھائے ہوئے سامنے آیا اور لال آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔دارائی ابروؤں کو جنبش ہوئی اور جمدھر اس کے سر پر اٹھ گیا۔پھر ،پھر جیسے ایک طرف پردہ اٹھا۔اورنگ زیب آگیا۔اور نگ زیب حاکم دکن ۔آتے ہی جلاد کا جمدھر سونے کا ہار بن کر اس کے گلے میں جگمگانے لگا۔اس نے گردن جھکالی اور اس کے رخسار کسی کے لبوں کے لمس سے لرز گئے ۔اس نے پوری آنکھیں کھول دیں تو جیسے لالہ مسکرادی۔اس کے جسم سے لالہ کی مخصوص خوشبو اٹھ رہی تھی ۔اس نے آنکھیں بند کرلیں اور کھڑا ہوگیا۔کسی نے اپنے سفید عریاں بازو اس کی گردن میں ڈال گئے ۔
’’کہاں ؟‘‘
’’بسنت۔‘‘
سوتا چھوڑ کر وہ اندھوں کی طرح چلنے پر مجبور ہوگیا۔پھر اس کے نتھنوں میں خوشبو ئیں اور کانوں میں آواز آئیں اور پاؤں قالینوں میں دھنس گئے۔پٹیاں کھولی گئیں ۔صندل کے تخت پر محراب خاں بیٹھا ہوا تھا ۔سفید چہرے پر مہندی سے رنگی ہوئی داڑھی اور تیز نیلی آنکھیں اور بھاری کمر میں جڑاؤ خنجر ،سب چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ تم محراب خاں کے سامنے ہو۔اس نے کورنش ادا کی۔محراب خاں تخت سے اٹھا ۔اس کے کندھے پر اپنا وزنی ہاتھ رکھ دیا اور تخت کے برابر رکھی ہوئی ہاتھی دانت کی کرسی پر بٹھادیا اور تمکنت سے بولا۔
’’ توتم ہو صاحبزادہ بلند اقبال کے ذاتی توپ خانے کے وہ میر آتش جس نے قندھار کو دوزخ بنا دیا ہے۔‘‘
جعفر سوچ رہا تھا کہ یہ تعریف ہے یا فردِ جرم۔
’’نوجوان !ہم تمہاری شجاعت کی داد دیتے ہیں اور تم سے ،سیّد جعفر صولت جنگ ،سے معاہدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن تم ضروریات سے فارغ ہولو۔‘‘
اس نے تالی بجائی اور دوماہ پیکر اور ستارہ لباس کنیزیں اندر آکر حکم کا انتظار کرنے لگیں ۔محراب خاں نے ان کی طرف دیکھے بغیر حکم دیا ۔
’’ہمارے مہمان اور دوست مرزا سیّد جعفر صولت جنگ کی خدمت میں رہو اور ہرحکم کی تعمیل کرو۔‘‘
کنیزوں نے سرخم کئے اور الٹے قدموں چلنے لگیں ۔خان نے کھڑے ہوکر اور کسی قد رخم ہوکر دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا ۔جعفر کنیزوں کے ساتھ چلنے لگا۔
خوشبودار پانی سے لبریز مرمریں حوض میں غسل کرکے وہ باہر نکلا تو شعلہ بدن کنیزوں نے سات رقوم جواہر سے آراستہ ہفت پارچہ خلعت پیش کی ۔مرصع ہتھیار کمر سے لگائے ۔سیمیں برتنوں میں میوے اور مشروبات پیش کئے ۔جب وہ محراب خاں کے دولت خانے کی طرف چلا تو شمعیں روشن ہونے لگی تھیں اور فانوس جگمگانے لگے تھے۔سنگ مرمر کے الستر کار اورجھاڑوں سے آراستہ ایوان میں آبنوسی تخت ،اصفہانی قالین پر زرد وز مسند لگائے محراب خاں بیٹھا تھا ۔جعفر کر دیکھتے ہی ذرا سا اٹھا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔گدازقالینوں پر نیم دائرے میں کھڑی ہوئی کنیزیں حرکت میں آئیں ۔کسی کنیز نے دھیمے سروں میں حافظ کی غزل چھیڑدی اور آہستہ آہستہ رقص ہونے لگا۔
ایک کنیز جھوم جھوم کر چلتی ہوئی آئی اور اپنی سفید ننگی کمر سے صراحی اُتاری۔پیالہ بھر کر پہلے محراب خاں کو پیش کیا اور کٹارسی آنکھوں سے جعفر کو دیکھتی رہی۔جعفر جو اس کے بدن کے پیچ وخم میں کھویا ہوا تھا اپنی ناک کے پاس پیالہ لئے بیٹھا تھا۔پھر خان نے ہاتھ بلندکیا،ایوان کنیزوں سے خالی ہوگیا۔محراب نے اس کے بازو پر ہاتھ رک دیا۔
’’وطن کی خدمت دنیا کی سب سے بڑی سعادت اور دین کی سب سے بڑی عبادت ہے ۔‘‘

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
جعفر خاموش رہا۔
’’مغل لشکر کے سردارانِ عظام میں سے صرف ایک جلیل الشان امیر ایسا ہے جو اگر ہماری معاونت کرے تو ہم ایران کو اس عظیم مصیبت سے نجات دلانے میں کامیاب ہوجائیں اور اس امیر کا نام ہے مرزا جعفر صولت جنگ۔‘‘
جعفر نے زبان نہ کھولی۔
’’آپ کو دارا کی سرکار سے جو تنخواہ ملتی ہے ،ہم اس کی دُگنی ادا کریں گے اور ایک سال کی فوراًادا کریں گے اور اس کے عوض میں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مغل توپ خانہ ہم کوکم از کم چالیس دن کی مہلت دے دے ۔چالیس دن تک خاموش رہے تاکہ زمین دوز راستیوں سے ہماری کمک آسکے اور زخمی توپ خانے کی مرمت کی جاسکے ۔‘‘ 
’’لیکن یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘
جعفر نے بڑے کرب سے جواب دیا ۔(جاری ہے)

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں