قبائلی اضلاع کے ایسے کیس بھی سامنے آرہے ہیں جو سزا بھگت رہے ہیں ،تحریری حکم نامہ نہیں ،جسٹس مسرت ہلالی
پشاور(نیوزرپورٹر)پشاور ہائیکورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ عجیب بات ہے قبائلی اضلاع میں ایسے بھی کیس سامنے آ رہے ہیں جو سزا تو بھگت رہے ہیں مگر اس حوالے سے کوئی بھی تحریری حکم نامہ نہیں اور جن لوگوں کو زیادہ تر سزا دی گئی ہے انکے خلاف کوئی ثبوت ہی پیش نہیں کیا گیا جبکہ جسٹس اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کا طالبان کے کمانڈر کے ساتھ آنا جانا تھا کو سزا دی گئی مگر اس کا اعتراف اس ملزم نے کیاہی نہیں جبکہ اس کی بیوی کو جرگے میں بلا کر اس قسم کا بیان دلوایا گیا فاضل بینچ نے یہ ریمارکس گزشتہ روز باجوڑ کے رہائشی نواز خان کی رٹ کی سماعت کے دوران دیئے دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل قاضی انور ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسکے موکل کو 23 جولائی 2016 کو اے پی اے باجوڑ نے حراست میں لیا کیونکہ وہاں پر دھماکہ ہوا تھا اور اس قبیلے کے 17 افراد کو مجموعی ذمہ داری کے تحت گرفتار کیا گیا انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ بعد میں اس پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا اور جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی اسکے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں تاہم صرف ایک جرگے کے اس نقطے پر کہ اس کی بیوی نے بیان دیا تھا کہ اس کا ایک طالبان کمانڈر کے پاس آنا جانا تھا پر سات سال قید کی سزا دی گئی جو کسی صورت قانونی نہیں چونکہ پشاور ہائیکورٹ پہلے ہی اس سزا کو معطل کرکے درخواست گزار کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر چکی ہے اس لئے یہ سزا کالعدم قرار دی جائے جسٹس اکرام اللہ نے اس موقع پر کہا کہ جیلوں میں تو ایسے لوگ بھی پڑے ہیں جن کے خلاف نہ تو ثبوت ہیں اور نہ انکے خلاف کوئی ٹھوس کیس بنتا ہے مگر پھر بھی وہ جیلوں میں ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں جس میں کوئی تحریری آرڈر ہی نہیں اور نہ ہی ٹرائل کیا گیا ہے بس صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لوگوں کو سزا دی گئی ہے جس کے تحت اب وہ جیلوں میں پڑے ہیں جبکہ دوسری جانب سرکار کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رب نواز خان نے عدالت کو بتایا کہ انکے پاس صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ ہے اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جرگہ ممبران نے مذکورہ شخص کی بیوی کو بلا یا اور انہوں نے بیان دیا ہے کہ اس کے شوہر نواز خان کا ایک طالبان کمانڈر کے پاس انا جانا تھا جس پر فاضل بینچ نے موقف اختیار کیا کہ صرف تعلق رکھنے سے جرم ثابت نہیں ہوتا کیا وہ کسی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہے اور کیا ایکشن ان ایڈ کے تحت دی گئی سزا عدالتوں پر لازم ہے کہ وہ مانے سزاؤں میں تو ٹرائل ہوتا ہے بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر سزا کالعدم قرار دی اور اسکی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری رکھتے ہوئے اسکو باقاعدہ عدالتوں میں پیش ہونے کے احکامات جاری کر دیئے