خواتین کاعالمی دن،صنفی عدم مساوات
8مارچ کو خواتین کےحقوق کے طور پر عالمی دن کی حیثییت سے جس میں خواتین کے بنیادی حقوق پر سیمینارز ،ریلیاں ،اجتماعات منعقد کرکے منایا جاتا ہے جسکامقصد کہ جو حقوق اسلام نے انہیں دیے ہیں انکی فی زمانہ یاد دہانی ، شنوائی اور اس پر عملداری کو یقینی بنایا جائے جہاں اسلام ، آئین پاکستان نے عورت کو آذادی رائے کا حق دیا ہے وہاں اسکو اس چیز کا بھی پابند ٹھہرایا ہے کہ اُس نے اپنی بات اپنے حق کے کےلیے آواز کیسے ، کس انداز ،کس طریقہ کار اور کن کن پیرامیٹرز کے تحت متعلقہ اداروں یا عالمی حقوق کی تنظیموں تک پہنچانی ہے تاکہ بطور عورت ہونے کا اسکا تقدس اور وقار بھی معاشرے میں قائم رہے اور بحثییتِ مسلم عورت اس پر زیادہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اُسکا اسلامی تشخص اقوامِ عالم بلخصوص غیر مسلموں کی نظر میں ایسے تاثر کے طور پر اُبھرے کہ وہ بھی اسکو رول ماڈل سمجھتے ہوئے اسکو اپنانے کی کوشش کریں اور کوشش نہ بھی کریں تو کم از کم اچھے پیرائے اچھے لفظوں میں یاد تو رکھا جاسکے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی ۔یونان ،مصر، عراق ، ہند ،چین غرض ہر قوم ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم نہ کیا جاتا رہا ہو لوگ اسے اپنے عیش و عشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے انکے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا تھا حتی کہ اہلِ عرب اسکے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا ۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اسکی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہبانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور مصیبت کادروازہ پاپ کا مجسم سمجھتے تھے دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اسکی سماجی حیثیت نہیں تھی اسکے معاشی و سماجی حقوق نہیں تھے وہ آذادانہ طریقہ سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی اسکی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدارحاصل تھا یہاں تک اسے فریاد کرنے کابھی حق حاصل نہیں تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ اقتدار میں زمام اقتدار بھی رہا اور اسکے اشارے پر حکومت و سلطنت گردش کرتی رہی ہے یوں تو خاندان اور طبقے پر اسکا غلبہ تھالیکن بعض مسائل پر مرد بھی ایک عورت کو بالادستی رہی اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں عورتوں کا بول بالا ہے لیکن عورت کی حیثیت سے انکے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا ، انکے حقوق پر دست درازی جارہی ہے اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی لیکن اسلام ایک مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اسکو زلت و پستی کے گڑھوں سے نکالا جبکہ وہ اسکی انتہا کو پہنچ تھی اسکے وجود کو بھی گوارہ نہیں کیا جارہا تھا تو نبی کریم ﷺرحمت اللعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس پستی سے نکالا اور زندہ دفن کی جانی والی عورت کو حقوق عطا فرمائے اور قومی و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے اسکو سامنے رکھکر اسکی فطرت کے مطابق اسکو زمہ داریاں سونپی ۔
مغربی تہذیب بھی عورت کو کچھ حقوق دیتی ہے مگر عورت کی حیثیت سے نہیں , بلکہ یہ اسوقت اسکو عزت دیتی ہے جب وہ ایک مصنوعی مرد بنکر زمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے مگر آپ ﷺ کا لایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی زمہ داریاں اس پر عائد کی جو خود فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں عام طور پرکمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کےلیے کافی محنت و کوشش کرنی پڑتی ہے تب کہیں جاکر انکو انکے جائز حقوق ملتے ہیں ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا موجودہ دور نے اپنی بحث و تمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اور یہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے حالانکہ یہ احسان عظیم اسلام کا ہےیہ حقوق اسلام نے اسلیے نہیں دیے کہ عورت اس کا مطالبہ کرہی تھی بلکہ اسلیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اسے ملنا چاہیے تھے اسلام نے عورت کاجو مقام و مرتبہ معاشرے میں متعین کیا ، وہ جدید و قدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے نہ تو عورت کو مادر پدر آزاد چھوڑا ہے نہ ہی قید و بند کا پابند کیا بلکہ بحثیت عورت کو اسکا پابند ٹھہرایا کہ وہ اپنا عورت کا مقام سمجھتے ہوئے جائز درمیانہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی آواز کو آزادی رائے کے طور پر استعمال کرے ۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کے دورِحکومت میں شہادت کی انگلی پر گنے جانے والے چند اچھے کاموں میں ایک اچھا کام سیاسی اداروں ،پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کو 17 فیصد کرنا تھا جسکے تحت پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نشستیں مخصوص کردی گئیں اور ایک فارمولے کے تحت ہر سیاسی جماعت کو حاصل کردہ کُل نشستوں کے تناسب سے خواتین کی نشستیں دینا تھا ہر سیاسی جماعت کو اسکی حاصل کردہ مجموعی نشستوں کی تعداد کا 10 فیصد خواتین نشستوں کی مد میں جاتا ہے چونکہ 2002 کے انتخابات کےلیے بڑی سیاسی جماعتیں پوری طرح تیار نہیں تھیں وفاداریاں مسلسل تبدیل کی جارہی تھیں لہذا وہ جماعتیں بھان متی کا کنبہ ہونے کاتاثر دے رہی تھیں ان انتخابات میں خواتین کو مخصوص نشستوں پر منتخب کرنے کامعیار صرف اور صرف جان پہچان اور اقربا پروری تھی کسی کی بیٹی کسی کی بہن کسی کی بھتیجی اور بھانجی کسی کی بیوی کسی کی بھابی اور کسی کی دوست بس ، بس یہی معیار تھا اور کچھ نہیں یہی وجہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ وہ مراعات سے فیض یاب ہوتی رہیں اور تھوڑی بہت انکی سیاسی اور پارلیمانی نظام میں تربیت ہوگئی اس تربیت نے 2008 کے الیکشن میں بہت کام دکھایا اور کافی تعداد میں باصلاحیت خوتین جنرل اور مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیں ۔
خواتین کے حقوق کےلیے قانون سازی اور دوسرے ایشوز پر پارلیمانی مقصد وجود میں آیا جس نے سیاسی جماعتوں اور نظریاتی وابستگی سے قطع نظف خواتین کےلیے بے پناہ کام کیا سب سے اہم کام چھ سات اہم قوانین بنائے گے جس کےلیے کافی عرصے سے جدجہد جارہی تھی ۔مثلاً وومین پاور پروٹیکشن بل ، جنسی ہراسگی بل ، پری وینشن آف اینٹی ویومین پروٹیکشن بل ، ڈومیسٹک وائلنس بل ، ایسٹ کنٹرول بل ، وومین ان ڈسٹریسس اینڈ ڈی ٹینشن فنڈ بل جیسے قوانین شامل ہیں اسکے علاوہ اور بہت قوانین پر کام ہورہا تھا ۔قانون سازی کے اس کام سے ہٹ کراگر ہم خواتین کی پارلیمنٹ میں کارکردگی کاجائزہ لیں یا جماعتوں کے اندر انکی فعالیت کو دیکھیں تو بہت خوش کن تصویر نظر نہیں آتی کتنی ہی ایسی خواتین ایسی تھیں جو پورے دور میں کہ ایک دفعہ بھی پارلیمنٹ نہ بول سکیں اگر بولنے کی جرأت کر لیتیں تو ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا لہذا اکثریت اپنے ذاتی کاموں یا مراعات تک محدود رہیں اور یہی وجہ تھی کہ کوئی خاتون سیاسی مدبر شخصیت کے طور پر سامنے نہ آسکیں ۔
اصل میں ہوتا یوں ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں کیاجاتا جماعتوں کے اندر بھی جو گروپ فیصلے کرتے ہیں اس میں بھی خواتین نہیں ہوتیں یوں ان پر فیصلے مسلط کردیے جاتے ہیں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو ترقیاتی فنڈ بھی نہیں دیے جاتے کیونکہ انکا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا ،چونکہ انکا کوئی حلقہ احباب نہیں ہوتا لہذا وہ حلقے کی سیاست سیکھ نہیں پاتی اور لوگوں کےلیے کچھ کرنہیں پاتی انکا انتخاب چونکہ جماعتوں کی لیڈرشپ کی مرہون منت ہوتا ہے لہذا انہیں اپنے لیڈر کی ہر بات کو ماننا پڑتا ہے یو ں پارلیمنٹ صوبائی سمبلیوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر اچھی خاصی تعداد میں ہونے کے باوجود انکا سیاسی کردار بہت غیراہم رہا ہے اصولی طور پر نشستوں کا کوٹہ 17 سے 33 فیصد ہوناچاہیے یہ 33 فیصد کوٹہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہوناچاہیے قانون سازی کے اعتبار سے ہماراملک دنیا کے کسی بھی ملک سے بہت پیچھے نہیں ہے بلکہ خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے کئی اہم ممالک سے آگے ہے نئی منتخب کردہ سیاسی خواتین کی سیاسی تربیت کےلیے قومی کمیشن براےء وقار نسواں NCSW کو کوئی اہم کردار دیا جاسکتا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو اپنی جماعت کے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کریں اور انکی کارکردگی ،کردار اور وابستگی کو اولیت دیں جنہوں نے پارٹی کیساتھ کمٹمنٹ نبھائی ہے ۔مرد و زن کی مثبت باہمی مشاورت سے معاشرے میں تبدیلی و ترقی کی جاسکتی ہے اسطرح صنفی عدم مساوات کا بھی خاتمہ کیا جاسکےگا ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔