”بلو بگھے بلیاں دا کی کریں گی“

”بلو بگھے بلیاں دا کی کریں گی“
”بلو بگھے بلیاں دا کی کریں گی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جو مرضی کرلو جتنا مرضی زور لگا کے ہیا او ہیا کہہ لوجمہوریت کیکھوتی نے بوڑھ تھلے آنا ہی ہوتا ہے۔پارلیمنٹ کے باہر جو ہوا کوئی نیا نہیں،محترمہ فاطمہ سے لے کر نصرت بھٹو تک سب نے یہ رویہ جھیلا ہے۔لیکن اب یہ بات مان لیں کہ سسٹم چھابے میں پڑے ہوئے شہتوت جلیبا سے بھی زیادہ سستا ہے۔اس پر ایک ذہین،جوڑ توڑ کا ماہر بھاری پڑ سکتا ہے اس سسٹم کی اتنی ہی اوقات ہے۔میرا یقین ہے کہ میرے جمہوریت کے آئیڈیل دیوتا اگر امریکن سینٹ میں بندے کھڑا کریں تو جو بائیڈن کیا اور ٹرمپ کیا،دیکھتے رہ جائیں،زرداری وہاں بھی دو اور دوپانچ کر کے دکھا دیں۔لیکن یہ شرف صرف ہمیں جاتا ہے کہ فخر سے کہیں یار زرداری بڑا ودھ ہے دیکھو اس نے کیسی گیم ڈالی۔بھیّا ہم خود اپنی سیاست کے چھوٹے موٹے بکّیے ہیں جنہیں یہ غرض ہے کہ کیسی فتح ہوئی،کیسے ہوئی یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔مجھے تو یہ سسٹم اپنی آخری ہچکیاں تے نال ماضی کی اداکارہ شبنم کی طرح سسکیاں لیتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ وہ جھولی ہے جو چھیک و چھیک ہو چکی۔چند ہزار چہروں کی رکھیل یہ سیاست کس غریب آدمی کو ککھ نہیں دے پائی اور نہ دے سکے گی بلکہ عوام پر ”گلا س توڑے بارہ آنے“کے نام پر قرضہ ضرور چڑھ گیا۔یہی خوف ہے جو مجھے جمہوریت سے بار بار سوال کرنے کا موقع دے رہا ہے کہ ”بِلو بگھے بلیاں دا کی کریں گی“۔ بلکہ اس کے گرد جھینگا لالہ ہو گانے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھگے بھگے بلیاں دا کی کریں گی۔سنتا سنگھ سے مسافر نے پوچھا کہ چک42 کہاں ہے،سنتا بولا یار چک41 کے بعد چک42ہے۔اس مسافر نے حیران ہو کر کہا کہ او بھائی پر چک 41کہاں ہے،سنتا سنگھ بولاچک 42توں پہلاں۔بس سمجھ لیں وڈیروں،جاگیرداروں طرم خانوں کے چک42سے پہلے میاؤں،زرداریوں کا چک 41آنا ہے۔اب مسافر اپنے سامان کی خود حفاظت کرے کمپنی کسی بات کی ذمہ دار نہ ہو گی،ہنسی آتی ہے،سلام ہے میرے قوم کی لیڈر شپ پر جنکی وکھیاں قوم کی بھوک ننگ،بے چارگی دیکھ کر دکھنے لگتی ہیں۔قوم مہنگائی کے ہاتھوں تقریباً فوت شد ہ ہے اور ا س کی قیادت کو ایک دوسرے کی  شلوار کھنچنے اور ماں،بہن کرنے کے اور کوئی کام نہیں افسوس سب کی شلوار وں میں الاسٹک کا ناڑہ ہے۔ بس اس عشق میں کسی کی عزت سادات سلامت نہیں۔کچھ ادارے عزتیں بچا کے بیٹھے تو آہ انہیں اشارے بلکہ گندے گندے اشارے کرتے ہیں۔قسم سے ان کے ظہرانوں پر جتنے پیسے لگتے ہیں اس میں کم از کم ایک ودھوا کا کینہ دان تو یو نہی ہوجائے۔سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا اس نے جمہوریت کو بھرے بازار میں برہنہ کر دیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کسی پہ پرچہ بھی نہیں کٹوا سکتی۔بس یہ سیمی اولڈ الہڑ مٹیار”انہی لوگوں نے لے لینا ہے دوپٹہ میرا“گا سکتی ہے۔اپوزیشن اور حکومت میں ست اکونجا کوئی پہلی بار نہیں۔دونوں میں صدیوں کا اٹ کھڑکا ہے۔بس اس میں پوزیشن بدلتی رہتی ہے۔آج مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں جو اکھ مٹکا ہے وہ بھی اٹ کھڑکے کی گود سے پیدا ہو ا ۔بنتا سنگھ نے ٹھنڈی آہ بھر کر اپنے دوست کو کہا کہ یار بچپن میں نیک بننے کی کوشش کی تھی،دوست نے کہا پھر بنتا سنگھ بولا بس بچپن گیا تو خواہش بھی چلی گئی۔ما شاء اللہ ہماری قیادت پیدائش کے بعد ڈائریکٹ حوالدار مطلب جوان ہو ئی۔اس لئے اس نے کبھی ایسی فضول خواہش کی ہی نہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کپتان کی جانب سے ووٹ آف کا نفیڈنس لینے کے بعد کم تیاں تے پہنچ چکا۔پکچر ابھی باقی ہے، اب دیکھیں اپوزیشن کب جوابی کاروائی کرتی ہے۔بس ہم نے ہر شارٹ پر تالیاں بجانی ہیں۔عوام کا رول اس فلم میں اس سے زیادہ نہیں۔بھّیا میرے بار بار کہتا ہوں کہ آپ جسے جمہوریت سمجھ رہے ہیں دراصل یہ الیکشن کا لباس جمہوری پارٹیوں کا زیور اور مہربانوں سے ادھار لئے سرخی پوڈر لگائے ایک بھیانک چڑیل ہے،یہ چڑیل بچے کھاتی ہے۔بھوک سے ایڑیاں رگڑتے بچے،ماؤں کی گود میں کلبلاتے بچے،ڈگریاں تھامے،آبلہ پا نوجوان،بے روز گار باپ،بھائی جہیز کے انتظار میں سسکتے سسکتے بوڑھی ہونے والی بہنیں۔اس چڑیل کے اندر شیطان ہر وقت موجاں ای موجاں کرتے پھرتے ہیں۔چوتھے نکاح کے وقت سنتا سے مولوی صاحب نے پوچھا قبو ل ہے،سنتا بولا،مولوی صاحب اسی کدے پہلے ناں کیتی اے۔ہر چار،پانچ سال سے سیاسی نکاح پر یہ 20  کروڑ سنتے بنتے ہاں ہاں پکار تے ہیں۔اس سے زیادہ ان کی عاجزی اور سسٹم سے عشق،محبت کیا ہو گی۔بہر حال مجھے تو منافقت،دھونس،دھاندلی دولت،ضمیر فروشی،جھوٹ،دھوکے کا سسٹم آخری ہچکیاں لیتا نظر آ رہا ہے۔فیصلے کی ٹائمنگ آگے پیچھے ہو سکتی ہے لیکن مجھے یہ ٹوپی ڈرامہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آرہا۔جاتے جاتے ان دانشوروں کے نام جو کسی بھی ایونٹ پر کہہ اٹھتے ہیں لوجی دو ستاں تے ہتھ چک لیا لوجی ہن انہوں نے اپوزیشن تے ہتھ رکھ دتا۔بس اس سے سمجھ لیں اس جمہوریت کی اوقات یہ ہمیشہ ایک ہتھ کی مار رہی ہے۔ہاں الیکشن کمیشن کے اس اہلکار کو میرا دونوں ہاتھوں سے سلام جس نے ڈیوٹی کے دوران وزیر اعظم سے کرسی پر بیٹھے بیٹھے بات کی۔یہ ہوتی ہے جرات اسے کہتے ہیں اوپن بیلٹنگ۔یہ عظیم اہلکار ہمارے اداروں کی نفسیات کا بہترین ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔ہو سکتا ہے شہباز شریف اور ایاز صادق کے آنے پر بار بار اٹھنے سے اس اہلکار کے گٹے گوڈے رہ گئے ہوں۔لیکن وزیر اعظم کی باری کسی نے ان کی کرسی کے تھلے ایلفی سٹ دی ہو۔
اپنے تیور تو سنبھالو کہ کوئی یوں نہ کہے 
دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں 

مزید :

رائے -کالم -