عمران خان کو محتاط رہنا ہوگا
عمران خان کا مقدر ہی ایسا ہے کہ وہ زندگی میں بار بار ہیرو بنے، بار بار دولہا بنے اور اب بار بار وزیر اعظم بن رہے ہیں مگر بدقسمتی سے وہ سیاست کے میدان خاردار میں جاداخل ہوئے ہیں جہاں عزتیں اچھالی جاتی ہیں اور تہمتیں پیچھا کرتی ہیں۔ جس دن ان کی حمائتی قوتیں واقعی ان سے پیچھے ہٹ گئیں ان کا حال یوسف بے کارواں جیسا ہوسکتا ہے۔
نون لیگ نے کمال ہوشیاری سے آج کا شو لوٹ لیا کہ ایوان کی کارروائی سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کے سپورٹروں کے غول میں جا پہنچے اور میڈیا کے مائیک اکٹھے کرکے پریس کانفرنس شروع کردی۔ اس دوران ان کے پیچھے عمران خان کے حمائتی پلے کارڈ لہرائے جاتے رہے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے ان کی دھکم پیل شروع ہوگئی اور یوں نون لیگ کو ایک اور پریس کانفرنس کرنے کا موقع مل گیا۔ ہمیں یاد آیا کہ جن دنوں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بڑے اہتمام سے کیا جاتا تھا، ان دنوں اسی طرح دو امیدواروں کا اپنے حامیوں سمیت ایک گلی میں آمنا سامنا ہوگیا، مخالفانہ نعروں سے شروع ہوکر بات دھکم پیل اور دھینگا مشتی میں بدل گئی۔ اس اثنا میں اینٹیں چل گئیں اور ایک چھوٹا سا پتھر ایک مخالف امیدوار کے سر پر جا لگا، جونہی اس کی پیشانی سرخ ہوئی، مخالف امیدوار اور اس کے سپورٹر تتر بتر ہو گئے جبکہ زخمی ہونے والے امیدوار نے ایک بڑی اینٹ ہاتھ میں اٹھائی اور پورے حلقے میں گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر اپنی زخمی پیشانی اور ہاتھ میں پکڑی اینٹ دکھاتے ہوئے یہ بیانیہ دیتا چلا گیا کہ دیکھیں مخالف امیدوار اور اس کے سپورٹروں نے اس کے ساتھ غنڈہ گردی کی ہے، بدمعاشی کی ہے اور اینٹ اس کے سر میں ماری ہے۔ شام تک پورے حلقے کا موڈ مزاج بدل چکا تھا اور ووٹر تاسف کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حق میں ووٹ بھی ڈالتے چلے گئے۔ کچھ ایسی ہی سازش نون لیگ کی قیادت نے پی ٹی آئی کے خلاف کی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر کے مقابلے میں پارلیمنٹ کے باہر ایک بڑا شو لگالیا!
جو کچھ پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں نے نون لیگی قیادت کے ساتھ کیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ماحول کس قدر کشیدہ ہو سکتا ہے نہ صرف مخالف سیاسی جماعتوں کے لئے بلکہ بعض آئینی اداروں کو بھی اس تناؤ اور کشیدگی کا شکار ہونا پڑسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھٹو کے زمانے میں بھی پیپلز پارٹی کے کارکن ایسے ہی دیدہ دلیری سے لاڑکانے چلوو رنہ تھانے چلو کے نعرے کو عملی تصویر بناتے نظر آیا کرتے تھے اور دیکھنے والے کہا کرتے تھے کہ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو ملک سے جلد جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا۔ کیا پی ٹی آئی کے کارکن جو کچھ کر رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے ہی انجام پر منتج ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر اپوزیشن کو ایک مرتبہ پھر اسی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران ڈی چوک میں کیا جاتا رہا تھا۔
عدم اعتمادی کی صورت حال سے دوچار ہو کر عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاکستان اعتماد کا ووٹ لینا پڑا ہے، یہ کٹھن مرحلہ ہے۔ 1993میں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا اور آج عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ طور پر جڑ کر وہی کچھ کیا ہے۔ آرٹیکل 91(7)کی زبان دیکھی جائے تو آئین کے مطابق عمران خان قومی اسمبلی کے اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں اور صدر مملکت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں مگر یہاں بھی پاکستان تحریک انصاف نے روائتی چالاکی دکھائی اور یوں ظاہر کیا گیا جیسے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت ہی نہ تھی اور ایسا کرکے انہوں نے کوئی بڑا تیس مارخاں ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
اس سے قبل سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی ان کی گورننس پر عوام کی سطح پر عدم اعتماد ہوچکا ہے۔ کیا یہ سلسلہ رک جائے گا؟ قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور دو چار مہینے بعد ایک اور سونامی برپا ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ چیئرمین سینٹ کی نشست پر بھی عمران خان کیلئے کوئی سرپرائزسامنے آجائے۔ اپوزیشن طے کر چکی ہے کہ وزیر اعظم کو بھگا بھگا کر پہلے تھکایا جائے اور جب وہ بالکل ادھ موئے ہو جائیں تو ان کے اقتدار پر ایسی کاری ضرب لگائی جائے جو حتمی ہدف کے حصول کو یقینی بنائے گی۔
اپوزیشن نے عمران خان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کارروائی کا حصہ نہ بن کر ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ انہیں ایک منتخب نہیں بلکہ منتخب وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ کیا ہی بہترہوتا اگر ایوان کی کارروائی اردو میں کی جاتی کہ تبدیلی سرکار ملک میں یکساں نصاب کا ڈرامہ بھی تو رچائے ہوئے ہے۔ انگریزی میں کارروائی کرکے نہ صرف سپیکر کی انگریزی پر کمزور گرفت آشکار ہوئی بلکہ پی ٹی آئی کا ڈبل سٹینڈرڈ بھی سب پر وا ہو گیا۔
گزشتہ روز پارلیمنٹ کے اندر جو ہوا اس کا فائدہ عمران خان کوکس قدر ہوگا اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا لیکن جو کچھ پارلیمنٹ کے باہر ہوا ہے اس کا نقصان انہیں ضرورہوگا کیونکہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ What goest around comes aroundجسے اردو میں کہتے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے!....امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہوتا رہ گیا وہ پاکستان میں عملی صورت اختیار کر سکتا ہے!