میری سیٹ،میری مرضی
کل عورت مارچ ہے اور مجھے پانچ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ واقعہ کی خاص بات یہ تھی کہ لاہور سے راولپنڈی تک ڈائیوو کی بس میں میری دو ہم سفر خواتین جو ساتھ ساتھ بیٹھی تھیں پونے پانچ گھنٹے کے سفر میں بالکل چُپ رہیں۔ پس منظر سمجھنے کے لئے آپ کو پریمیم پلس نام کی اُس اعلی نسب کوچ کی اندرونی جھلک دیکھنا ہو گی جہاں ہر قطار میں دائیں رخ پہ دو دو نیم ملحقہ سیٹیں اور بائیں جانب ایک ایک نشست ہوتی ہے۔ میری ٹکٹ پہ سترہ نمبر درج تھا، اس لیے مَیں کوچ کی روانگی سے پندرہ منٹ پہلے ڈبل سیٹ پر الٹے ہاتھ بیٹھ گیا۔اب اپنے سامنے کو شمال تصور کروں تو مشرقی بغل میں سولہ نمبر سِیٹ ہوائی جہاز کی طرز پہ میرے ساتھ جڑی ہوئی تھی، جبکہ مغرب میں اٹھارہ نمبر الگ تھلگ سیٹ مجھ سے کوئی تین فٹ کے فاصلے پر ہوگی۔ چند لمحوں میں ایک خاتون میرے ساتھ والی سیٹ پہ آ بیٹھیں۔ مَیں ایک رسالے اور تین تازہ اخباروں کا زادِ راہ لے کر آیا تھا تاکہ غیرضروری بات چیت سے بچا رہوں۔
روانگی میں دو منٹ ہوں گے کہ سنگل سِیٹ کے پاس دو اَور خواتین کی موجودگی کا احساس ہونے لگا۔ ایک تو کوچ کی ہوسٹس اور دوسری نوعمری کی آخری حدود میں، جیسے غیر ملکی یونیورسٹی میں پوسٹ گریجوایٹ اسٹوڈنٹ ہوں۔ ”نمبر ایٹیِن میری ہے‘‘ اسٹوڈنٹ نے سنگل سیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ اِس پر میرے ساتھ والی قدرے معمر خاتون نے سولہ نمبر ٹکٹ دکھا کر ہوسٹس کے کان میں کچھ کہا اور انگلی میری سمت میں ہلائی۔ جہاندیدہ انسان کے طور پہ مَیں بھانپ گیا کہ یہ دونوں عورتوں کے جڑی ہوئی ڈبل سیٹ پر اور میرے اکیلی سیٹ پر بیٹھنے کی تجویز ہے۔ رکاوٹ نہ ڈالنے کے انداز میں کہا: ”مجھے کوئی بھی فیصلہ منظور ہے“۔ اب جو ہوسٹس کے ایما پر سنگل سیٹ پہ بیٹھنے لگا ہوں تو مہذب سی اسٹوڈنٹ رُعب سے بولیں: ”یہاں کیوں؟ یہ تو میری سیٹ ہے۔“ ”جی ہاں، اجازت کے بغیر نہیں بیٹھوں گا۔“
بالآخر خواتین نے سیٹوں کا مسئلہ بظاہر ہوسٹس کی تجویز کے مطابق طے کر لیا۔ پھر بھی سولہ، سترہ اور اٹھارہ نمبر کے درمیان ایک دبا دبا سا کھچاؤ محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ہو گئی ہو۔ اچھی ڈائرکٹ کی ہوئی فلم کی طرح ہم میں سے نہ تو کوئی اونچی آواز میں بولا نہ بحث نے طول کھینچا۔ مَیں آرام سے الگ سِیٹ پہ ایک طرف بیٹھ گیا اور دونوں خواتین جُڑی ہوئی نشستوں پر۔ نوجوان خاتون اپنے لیپ ٹاپ پہ بظاہر سکون سے کام کرتی رہیں۔ بے سکونی تھی تو شاید صرف اِس بات کی کہ مخصوص نمبر کا ٹکٹ رکھتے ہوئے بھی سیٹ بدلنے پہ زور دے کر اُن کے حق کی نفی کیوں کی گئی۔ بڑی عمر والی صاحبہ نے گھر پہنچ کر ضرور کہا ہو گا کہ توبہ توبہ، عجیب لڑکی تھی جو اتنا بھی نہیں سمجھ سکی کہ دونوں عورتوں کو ساتھ ساتھ بیٹھنا چاہیے اور غیر مرد کو اکیلی سیٹ پر۔
اب ایسا بھی نہیں کہ اِس چپ چپیتے سفر میں میڈیم ویو یا ایف ایم پر کوئی بھی ٹرانسمشن سنائی نہ دی ہو۔ میرے پیچھے کچھ فاصلے پر قوم کی تعمیرِ نو میں مصروف ایک جوڑا اپنے لخت ِ جگر کو ریکارڈڈ میوزک کی مدد سے اے، بی، سی سکھاتا رہا۔ اُن سے ہٹ کر ایک افسر ٹائپ آدمی موبائل پہ محکمانہ پروموشن اور پوسٹنگ کے مسائل ڈسکس کر رہا تھا۔ دُور سے سنائی دینے والی دھیمے لہجے کی زنانہ گفتگو جوائنٹ فیملی میں رہنے کی افادیت کے بارے میں تھی۔ ”مَیں تو پیرنٹس کے گھر جاتی ہوں تو بچے آنٹی کے پاس ہی ہوتے ہیں، مطلب ہے عبید کی امی کے پاس، اور خوش رہتے ہیں“۔ ”بیٹا، آپ بہت لکی ہیں جو ایسے ساس سسر ملے“۔ بات چیت کے دوران جب دیر تک کوئی وقفہ نہ آتا تو میرے خیالوں میں بچپن کی ریل گاڑی میں زنانہ ڈبہ کے ماحول کی فلم چلنے لگتی۔
اُس کمپارٹمنٹ کے باہر مسافروں کی رہنمائی کے لیے عورت کی تصویر بنی ہوتی، یہ اس لیے کہ شرحِ خواندگی انتہائی کم تھی۔ اِن حالات میں خواتین میں اپنی سیٹ سے وابستہ ماڈرن حقوق کا شعور کیا ہوتا؟ اُن کے تو ٹکٹ تک باپ، شوہر یا بھائی کی جیب میں ہوتے جو اسی ٹرین کے مردانہ ڈبوں میں محوِ سفر ہوا کرتے۔ ابا سے سُنا ہوا یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک مرتبہ وہ ہماری دادی کو ساتھ لے کر سیالکوٹ سے جموں پہنچے۔ گاڑی رکی تو دیکھا کہ زنانہ ڈبے سے ماں غائب تھیں۔ سارا اسٹیشن چھان مارا، ریلوے اسٹاف سے پوچھا، ٹوائلٹ تک چیک کئے اور تھک ہار کے بے یار و مددگار تانگہ پکڑ کر ریذیڈنسی روڈ کی طرف چل پڑے۔ آدھے راستہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ والدہ اپنے چھوٹے بیٹے کو انگلی سے لگائے شہر کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتی جا رہی ہیں۔ پھر کیا ہوا؟
پہلے تو ڈرامائی مکالمہ ہوا……”بی جی، آپ نے تو میری جان نکال دی تھی۔“ ”نذیر، شکر ہے اللہ کا کہ تم مل گئے“۔ ذرا حواس بحال ہوئے تو بتانے لگیں کہ جب ٹرین چلی تو تم پلیٹ فارم پہ چائے پی رہے تھے۔ ایک زنانہ سواری نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا ”بہن، تمہارا لڑکا تو وہیں کا وہیں رہ گیا، گاڑی پہ چڑھا ہی نہیں۔“ اب بی جی سخت پریشان کہ جموں پہنچ کر ٹکٹ کے بغیر باہر کیسے نکلیں گی۔ آخر ایک عورت نے اسٹیشن کا وہ حصہ دکھا دیا جہاں لوہے کی سلاخوں کے بیچ میں جھک کر باہر نکل جانے کے لیے ایک چھوٹا سا راستہ تھا۔ ابا کہتے ہیں کہ جس طرح ساڑھے تین ہارس پاور والی جھٹکے دار موٹر سائیکل سے اتر کر بھی آدمی آدھا گھنٹہ ہلتا رہتا ہے، اسی طرح باقی کا سارا دن بی جی یہ سوچ سوچ کر کانپتی رہیں کہ اگر ٹکٹ چیک ہو جاتا تو میری کیا عزت رہتی۔
زنانہ ڈبوں میں قید یوں کی مانند سفر کرنے والی بڑی بوڑھیوں اور اپنی مرضی کی سنگل سیٹ پر بیٹھنے پہ مُصر ہماری لڑکیوں کے درمیان کچھ نہیں تو دو نسلوں کا فاصلہ ہے میری بیوی اور بیٹی نے کہانی سُن کر ڈائیوو والی لڑکی کی حمایت تو کی، مگر یہ بھی کہا کہ ”ویسے کسی بھی ڈیسنٹ آدمی کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے۔“ تو ڈیسنٹ آدمی کون ہوتا ہے۔ کراچی سے اسلام آباد کی پرواز روانہ ہونے لگی تو میری نوعمر بھانجی نے دیکھا کہ تین والی سیٹ پر ایک انکل عین درمیان میں تشریف فرما ہیں اور آنٹی اُن کے الٹے ہاتھ کھڑکی کے ساتھ۔ اکیلی لڑکی نے کہا: ”اگر آپس میں جگہ بدل لیں تو آنٹی بیچ میں ہو جائیں گی اور مَیں اُن کے دائیں۔“ ”بالکل نہیں، ونڈو سیٹ میری ہے۔“ یہ عمر رسیدہ آنٹی نے جواب دیا تھا۔ مطلب یہ کہ ’ڈیسنٹ کون‘ والا سوال عمر یا صنف کا مسئلہ نہیں۔ بس میری سیٹ، میری مرضی۔