مٹھی سے ریت پھسل رہی ہے
سیاسی سطح پر جو ہلچل مچ چکی ہے کیا وہ اعتماد کا ووٹ لینے سے تھم جائے گی؟ یہ ہے آج کا بڑا سوال، اپوزیشن نے اس اعتماد کے ووٹ سے قطع تعلقی کا اظہار کیا، گویا معاملہ یک طرفہ ہو گیا۔ اس صورت حال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا، ہم نے تو ماضی میں یہی دیکھا ہے کہ جب نوبت یہاں تک آ جائے تو حالات کو لپیٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر تو بساط ہی لپیٹنی پڑتی ہےّ حکومت ایک دریا کے پار اترے گی تو دوسرا دریا اس کے سامنے ہوگا۔ یہ وہی مارچ ہے جس میں اپوزیشن نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ شاید اس اعلان میں اتنی جان نہ پڑتی جو اس لانگ مارچ کے حوالے سے جنوری میں کیا گیا تھا، مگر اب سینیٹ انتخابات نے جو سیاسی ماحول گرما دیا ہے، اس میں یہ لانگ مارچ بھی ایک بڑا طوفان نظر آتا ہے جو نجانے کیا گل کھلائے، میں تو ان 16ارکان اسمبلی کے بارے میں سوچ رہا ہوں، جنہوں نے یہ ساری ہلچل مچائی، حکومتی امیدوار کو شکست بھی دلوائی اور پھر اعتماد کا ووٹ بھی دیا، یہ چھلاوے چھپے رستم ثابت ہوئے، جن کے بارے میں کپتان نے کیا کچھ نہیں کہا، لیکن پھر انہی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ کیا کبھی ان ارکان کے نام سامنے آئیں گے؟ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ شاید کبھی نہیں کہ اس نظام میں سب کچھ گم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی، بلکہ مزید بڑھ جاتی ہے، مگر سوال پھر وہی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کیسے آئے گا۔ پہلے ہی قومی اسمبلی میں ہنگامے ہوتے تھے، قانون سازی ناممکن تھی، اب تو لگتا ہے اپوزیشن اسے چلنے ہی نہیں دے گی۔ جس طرح اپوزیشن نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بلائے گئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اب اپوزیشن اس اسمبلی کو کام نہیں کرنے دے گی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ سیاسی انتشار، عدم استحکام اور بے یقینی۔
سنجیدہ سیاسی حلقے اور مبصرین اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان عوام سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے اسمبلیاں توڑ دیں اور نئے انتخابات کی طرف جائیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ضرور ہے، مگر معروضی حالات میں اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں۔ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے حکومت کو جو شکست ہوئی، وہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے، اس کے جھٹکے اب تادیر محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ پہلے ہی تقریباً پونے تین سال حکومت تجربات کرنے میں گزار چکی ہے اور اس کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں رہی۔ اس وقت تو ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت جم کر کام کرے، اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی کرے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے بڑے اقدامات اٹھائے، لیکن یہ تو تبھی ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو، یہاں تو ہر روز نیا پنڈورا بکس کھلتا ہے، روزانہ اک نئی کہانی منظرِ عام پر آتی ہے۔ بے یقینی کی صورت حال ایسی ہے کہ کسی وقت بھی کچھ ہو جانے کا کھٹکا لگا ہوا ہے۔ حکومت بڑی مشکل سے خود کو بچا پائی ہے، مگر اس بچاؤ کو اپوزیشن نہیں مان رہی، کوئی ایسی راہ بھی دکھائی نہیں دے رہی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہی ہو جائے۔ میرے نزدیک حکومت کی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اپوزیشن کو مصروف رکھنے کے لئے مذاکرات کا دروازہ کبھی سنجیدگی سے نہیں کھولا، کپتان شروع دن سے یہی کہتے آئے ہیں کہ چوروں لٹیروں کو این آر او نہیں دوں گا۔ ارے بھائی آپ این آر او بے شک نہ دیں، دیگر ایشوز پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت تو دیں۔ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے حکومت اب مذاکرات کی پیشکش کرے تو اسے کمزوری سمجھا جائے گا اور اپوزیشن اسے مسترد کر دے گی۔ کوئی ایسا مدبر سیاستدان بھی نظر نہیں آتا جو حکومت و اپوزیشن کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مذاکرات کے دروازے تو کھلے رہنے چاہئیں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی، اس وقت بھی ساتھ ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا، مگر اس بار تو شروع دن سے ایسا لگ رہا ہے کہ ملک دو متحارب قوتوں کی رزم گاہ بنا ہوا ہے۔
حکومت کی جھنجھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ آئینی اداروں کے بارے میں اپوزیشن جیسے رویے کا اظہار کر رہی ہے، حالانکہ حکومت ہمیشہ آئینی اداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ پہلی بار الیکشن کمیشن کواپنا ایک پریس ریلیز صرف اور صرف وزیراعظم اور وزراء کے بیانات کی روشنی میں جاری کرنا پڑ گیاہے۔ کیا اس بات میں کسی کو کوئی شک ہے کہ الیکشن کمیشن آئین میں دی گئی حدود کے مطابق کام کرتا ہے۔ کیا سینیٹ انتخابات بارے آئین میں جو طریقہ موجود ہے، الیکشن کمیشن اس میں از خود تبدیلی کر سکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے جو رائے دی وہ آئین میں ترمیم کا درجہ حاصل کر سکتی ہے؟ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بات بھی ممکن نہیں تو پھر وزیراعظم کا قوم سے خطاب کرتے ہوئے سیدھا الیکشن کمیشن کو نشانہ بنانا کوئی مناسب بات تھی؟ جب خود سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ آئین کی روح کے مطابق الیکشن خفیہ رائے دہی سے ہوں گے تو پھر وزیراعظم یا وزراء اپنی خواہشات پر مبنی فیصلے کیوں چاہتے تھے۔ حکومت کی اصل ناکامی تو یہ تھی کہ وہ اپنے ارکان اسمبلی کو بھٹکنے سے بچانے کے لئے کوئی قدم اٹھانے سے قاصر رہی اور الیکشن کمیشن سے توقع باندھ کر بیٹھ گئی کہ وہی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی بغاوت کو روکے۔ ایسے بھلا ”بغاوت“ کیسے رک سکتی تھی۔ پہلی باریہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کا الیکشن کمیشن زباں بندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس نے ڈسکہ الیکشن کے بارے میں بھی زبان کھولی اور ایکشن بھی لیا، اب سینیٹ انتخابات کے بارے میں وزراء کے مخالفانہ پروپیگنڈے کو بھی دلائل کے ساتھ مسترد کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا بہت درست ہے کہ جہاں حکومتی امیدوار جیتے ہیں، وہاں الیکشن کو شفاف قرار دیا جا رہا ہے اور جہاں شکست ہوئی ہے وہاں غصہ الیکشن کمیشن پر نکالا گیا ہے۔
سیاسی کشیدگی جس سطح تک پہنچ گئی ہے، اسے کم کرنے کے لئے جرات مندانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ قدم اپوزیشن اور حکومت دونوں کی طرف سے اٹھایا جانا چاہیے۔ کشیدگی اسی طرح بڑھتی گئی تو جمہوریت کو خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کھلے دل سے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ یہ جو سخت قسم کا ڈیڈ لاک پیدا کر دیا گیا ہے، اسے ختم کریں۔ مذاکرات کے ذریعے کوئی روڈمیپ طے کیا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایک لولے لنگڑے مینڈیٹ کے ساتھ حکومت کے دن پورے کرنا مناسب ہے یا انہیں نیا مینڈیٹ لینے کے لئے عوام کے پاس جانا چاہیے، بہت سی چیزیں ابھی ان کے ہاتھ میں ہیں، تاہم وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔