وزیراعظم کو واقعی اعتماد کے 178 ووٹ پڑے؟ سوشل میڈیا پر ہنگامے کے بعد اعدادوشمار سامنے آگئے
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے رضاکارانہ طورپر گزشتہ روز قو می اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا جس دوران انہیں 178اراکین حمایت ملی جبکہ اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، نتائج سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ووٹوں کی تعداد کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے لیکن اب اس بارے میں اعدادوشمار سامنے آگئے ۔
بادی النظر میں سوشل میڈیا پر گردش کرنیوالی افواہیں جن میں یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ وزیراعظم نے اعتماد کے178ووٹ نہیں لیے ، وہ غلط ہیں۔ آئین کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 342ہے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں، اس وقت قومی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جس کے بعد اراکین کی مجموعی تعداد340ہے ۔ اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل اراکین کی تعداد 180ہے جن میں تحریک انصاف کے 156، متحدہ قومی موومنٹ کے سات، مسلم لیگ ق کے پانچ ، بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تین ، عوامی مسلم لیگ کا ایک ، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور دو آزاد اراکین شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ووٹ نہ ملنے کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں لیکن دراصل وہ گزشتہ سال حکومتی اتحاد سے الگ ہوکر اپوزیشن کا حصہ بن چکی ہے اور بی این پی کے علاوہ حکومت کے پاس 180اراکین ہیں جبکہ فیصل واوڈا کے استعفے سے قبل یہ تعداد 181تھی ۔ ایک آزاد رکن اسمبلی علی نوازشاہ ووٹنگ کے موقع پر غیر حاضر تھے جبکہ سپیکر اسد قیصر اپنی ذمہ داری کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہ کرسکے ، یہ دو ووٹ کاسٹ نہ ہونے کے بعد حکومتی اراکین کی تعداد 178رہی اور سپیکر نے بھی اعلان کیا کہ وزیراعظم کواعتماد کا ووٹ کیلئے لائی جانیوالی قرارداد کے حق میں 178ووٹ کاسٹ ہوئے ، اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو سپیکر کی طرف سے اعلان کردہ تعداد ہی درست ہے ۔
جہاں تک این اے 75ڈسکہ کی بات ہے تو وہ مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی اور یہ ایک ووٹ حکمران جماعت کے ووٹوں سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک (فافن) نے بھی انہی اعدادوشمار کی تصدیق کی۔