عائشہ کا دُنیا کو خیر باد کہنا ۔۔۔کیا خود کشی مسائل کا حل ہے؟؟؟
تحریر:رابعہ راحیل
"پاپا مجھے کُچھ نہیں سننا بس پانی میں کُودنا ہے۔ ۔۔میری بس ہوگئی ہے۔ ۔۔میں تھک گئی ہوں کب تک سب کو تکلیف دوں گی۔۔۔"یہ افسوسناک واقعہ بھارت کے شہر احمد آباد میں 23 سالہ بھارتی لڑکی عائشہ کے ساتھ پیش آیا جس نےجہیز نہ ملنے پر سُسرال والوں کے طعنے اور اپنے شوہر عارف کے بُرےرویے سے دلبرداشتہ ہو کر ندی میں کُود کر خودکشی کرلی۔۔۔
عائشہ اپنے بہت پیار کرنے والے والدین اور دُنیا کی ہر نعمت کو یہ کہہ کر ٹھکرا کر چلی گئی کہ" اللہ سے دُعا ہے کہ دوبارہ اِنسانوں کا کبھی منہ نہ دِکھاۓ" سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر یہ بیٹی اِس انتہا تک پہنچی کیوں اور کیا دُنیا میں ہر لڑکی اپنے گھر میں خوش ہے؟کیا دُنیا میں لوگ اِس سے بھی بُرےحالات میں رہ رہے ہیں؟
یقیناً۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہر ایسا شخص جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہے خودکشی کیوں نہیں کر لیتا آخر عائشہ ہی کیوں؟؟؟
کہتے ہیں پانچ اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں بالکل اِسی طرح ہر بچہ اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے ایک سا نہیں ہوتا کوئی حساس ہوتا ہے تو کوئی برداشت کر جاتا ہے کوئی تخیلی یا افسانوی دُنیا میں رہنے والا ہوتا ہے اور کوئی حقیقت کا سامنا کرتا ہے۔۔۔ایسا ہی کُچھ عائشہ کے ساتھ بھی تھا جو یا تو کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہوچکی تھی یا تخیلاتی دُنیامیں رہنےوالی لڑکی تھی جس نےہزارہا ایسے واقعات اپنی زندگی میں دیکھیں ہوں گےلیکن یہ نہ سمجھ سکی کہ شادی زندگی کاحِصہ ہے، شادی بذات خود زندگی نہیں اور حقیقی زندگی کوئی فلمی سین نہیں۔۔۔
آخر کب بیٹیوں کو اپنے گھر لے جانے والے لوگ یہ سمجھیں گے کہ جس نے بیٹی دے دی اُس نے سب دے دیا؟؟؟ جہیز کا مطالبہ کرکے کسی کی بیٹی کی جو عزت سے آپ کے گھر آئی ہے اس کی تذلیل نہ کریں۔ یاد رکھیں زندگی مکافاتِ عمل ہے اور وقت خود کو دہراۓ گا۔ عموماً جہیز کا مطالبہ لڑکے سے زیادہ ساس کی طرف سے آتا ہے اور عورت ہی عورت کی دُشمن بنجاتی ہے یا شاید اپنے جہیز کا بدلہ اپنے گھر آنے والی بہو سے لیتی ہے۔ اِس رسم کو ہم سب نے مِل کر توڑنا ہے۔۔۔ایسےبےقدرےلڑکےیالالچی گھرانے جو بچیوں سے نکاح کےلیے شرائط یا جہیز کی ڈیمانڈ کریں ایسے لوگوں کو اِن کے ٹھکرانے سے پہلےہی ٹھکرا دینا چاہیے۔۔۔یہ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچپن ہی سے بچوں میں برداشت اور خوفِ خدا ڈالیں چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی کیونکہ مسائل دونوں کے ساتھ پیش آتے ہیں لیکن زیادہ مسائل عورت کے ساتھ پیش آنے کی وجہ سے معاشرے کا جھکاؤ عورت کی طرف ہوتا ہے اور اُسے ہی کمزور سمجھا جاتا ہے ۔۔۔والدین اولاد کو اِس بات کی تعلیم دیں کہ زندگی میں ہر اِنسان کو بہت سی آزمائشوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر زندگی میں کِسی ایک موڑ پر اندھیرا ہے تو کیا ہوا زندگی میں جہاں روشنی ہے اُس کے سہارے آگے چل پڑیں اور حالات کا مقابلہ کریں ۔۔۔
خودکشی حرام ہے خدارا اِسے ٹرینڈ سیٹر (trend setter )نہ بننےدیں۔۔۔بہت افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ آجکل ٹِک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے آج کی جنریشن پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔۔۔ ہر کوئی اپنے اندر ایک ہیرو تلاش کرتا ہے اور مشہور ہونے کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔۔۔بہت معذرت کے ساتھ لیکن کیا اگر عائشہ نے خود کشی کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو کیا ایک ایسے شخص کےلیے جس نے اُسے ٹھکرا دیا، اپنے بہت پیار کرنے والے والدین اور چاہنے والوں کو ساری زندگی اذیت دینے کےلیے یہ ویڈیو بنانا ضروری تھی؟؟؟کیا قصور تھا اُن والدین کا جنھوں نے عائشہ کی زندگی میں ،اُس کے مشکل حالات میں اُس کا ساتھ دیا اور پھر عائشہ کا والدین کو اِس طرح پیچھے چھوڑ کر جانا کہ والدین ساری زندگی لوگوں کے سوالوں ، تجزیے اور طعنوں کا جواب ہی دیتے رہ جائیں مناسب ہے؟؟؟
ایسے دُنیا سے جانے کا انتخاب نہ کریں کہ پیچھے رہ جانیوالے پیارے رشتے زندہ درگورہوجائیں۔خودکشی کوئی بہادری نہیں نہ کوئی شہادت ہے جس کے بعد خود کشی کرنے والا ہمیشہ کےلیے امر ہو جاۓ گا یہ فعل کمزور ہونے کی نشانی ہے۔چار دن گزریں گے لوگ بھول جائیں گے مگر ماں باپ ساری زندگی تڑپتے رہ جائیں گے۔ ۔۔زندگی کو چیلنج سمجھ کر قبول کریں ،جب اللہ کی طرف سے آزمائیشیں زیادہ بڑھ جائیں تو صبر اور ہمت کا دامن نہ چھوڑیں اور حالات کا مقابلہ کریں ۔
کوشش کریں خود کواتنامصروف کر لیں کہ آپ کے پاس آپ کےمسائل اور محرومیوں کو سوچنے اور انکا احساس ہونے کا بھی وقت نہ رہے ۔ہماری بہت ساری خواتین کی ہمدردی عائشہ کے ساتھ ہے مجھے عائشہ کے مسائل پر ، اُس کے دنیا سے چلے جانے پر ، اُس کے والدین کی اذیت پر بہت دُکھ ہے مگر میں اس واقعہ کی شدید مذمت کرتی ہوں تاکہ پھر کوئی اور عائشہ اِس واقعہ سے متاثر ہوکر یا اس واقعے کو لوگوں کی توجہ کا مرکز اورتمام مسائل کا حل سمجھ کر دوبارہ یہ قدم نہ اُٹھاۓ۔۔۔
مجھے فخر ہے ہماری ہر اُس بہن، بیٹی پر جو حالات کا مقابلہ کرتی ہے ۔ خاص طور پر وہ بہنیں جو نہ پڑھی لکھی ہیں ، نہ معاشی طور پر خوشحال ہیں نہ اُن کو کوئی فیملی سپورٹ ہےاور وہ بچوں کے ساتھ زندگی کے ہر چیلنج کا خُدا کا شکر گزار بن کر مقابلہ کر رہی ہیں۔ عائشہ ایک مظلوم لڑکی تھی، اُس کے ساتھ ضرور بُرا ہوا لیکن جو اُس نےاپنےاوراپنےگھروالوں کےساتھ خُود کیا وہ اس سے بھی بُرا تھا ،وہ پڑھی لکھی تھی خُود کو سنبھال سکتی تھی۔ایک شخص پرزندگی ختم نہیں ہوجاتی، اسلام نےعورت کے لیےخلع کی گُنجائش رکھی ہے۔
ہر انسان پر اللہ مختلف طرح سے آزمائش ڈالتا ہے۔۔ اللہ نے ہمیں قرآن میں بار بار صبر کی تلقین کی ہے تو کیا ہم اللہ کی آزمائش پر پورا اُترنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟کیا ہم مسائل کے باوجود اُس کے شکر گزار بندے نہیں بن سکتے؟ حضورﷺ نے فرمایا " جو اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا رہے گا اور جو شخص نیزہ چبھو کر مارتا ہےوہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ چبھو کر مارتا رہے گا"۔(صحیح بخاری: حدیث نمبر 1289)ایک اور جگہ حدیث میں ارشاد ہے۔" جو شخص جس چیز کے ساتھ خودکشی کرے گا اُسے جہنم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاۓ گا۔ "( صحیح بخاری حدیث 6652 )
میری والدین سے بھی درخواست ہے کہ اپنی بیٹیوں کو اس مینٹل سٹیٹ میں آنے سے پہلے بچا لیں ۔خدا نے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے زندگی کا خاتمہ کرے۔ خود کُشی حرام ہے۔لیکن خُدا کی ذات بہت رحیم و کریم ہےوہ جس کو چاہے بخش دےاورانسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی پر جنتی یا دوذخی ہونے کا لیبل لگائے۔دُعا ہے کہ اللہ اِس بیٹی کی مغفرت فرماۓ۔۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔