پو لیس اور ٹیکنالوجی،کمانڈر کے کرنے کاکام
پشاور مسجد میں ہونے والے خود کش دھما کے نے ایک بار پھر سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور ختم ہونے والے دہشت گردی کے اس ناسور نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے،سکیورٹی حکام کی عمومی سوچ یہی ہے کہ شہری علاقوں میں لوگوں اور عمارتوں کی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے سے تحفظ کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لیے تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو دور رکھنے کے لیے نظر آنے والے سکیورٹی اقدامات پر ہی زیادہ زور دیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ طرزعمل ٹھیک نہیں ہے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے مستقل اور پائیدار حل کی ضرورت ہے اور قانون کی حکمرانی ٹیکنالوجی پر مبنی پولیس کے ذریعے ممکن بنائی جانی چاہیے، دنیا کے بڑے بڑے شہروں کی گلیوں اور شاہراوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی بڑھانے کے بجائے ایک مربوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ذریعے سے جدید کیمروں کی آنکھوں اور کانوں کا استعمال زیادہ کیا جا رہا ہے۔ہمیں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کی جانب جانے کی ضرورت ہے تاکہ سکیورٹی معلومات اکھٹی کرنے کے سارے نظام کو ہی ’ورچوئل‘ یا نظر نہ آنے والا بنا دیا جائے،کیمروں کی تنصیب اور ہر حرکت کو ریکارڈ کرکے نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اِس سے تمام پولیس افسران کا احتساب بھی ممکن ہے اور عوامی ردعمل بھی کئی گناہ بڑھ سکتا ہے۔ اِس کا سب سے زیادہ فائدہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کو ہوگا۔ اِس سے چہرے کی شناخت کے ذریعے سے ذمہ داروں کی نشاندہی میں مدد ملے گی اور اِس کو عدالتوں میں ثابت کیا جا سکے گا جس کا وکیل صفائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔اس طرح ٹیکنالوجی آف پولیس(ٹی او پی) عدل کے نظام میں فیصلہ کن اضافہ ثابت ہو گا اور تمام شہری آبادی اِس سے مستفید ہوگی۔ٹی او پی سے جرائم میں کمی۔
ٹریفک حادثات کے دوران اموات میں کمی،ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر اقدامات کے ذریعے سے آمدنی میں اضافہ،شفاف نظام، احتساب اور شہریوں کی سکیورٹی کے معاملات بہتر انداز میں چلا کر عوام کے اعتماد کو جیتا جا سکتا ہے۔لہذا ضروری ہے کہ ہمیں نت نئے تجربات کرنے کی بجائے دہشت گردی جیسے ناسور کے خاتمے اور دیگر عوامل پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی کی طرف بڑھنا چاہیے،ملک بھر،صوبوں اور شہروں میں ہروقت کوئی نہ کوئی اہم ایونٹ یا سرگرمیاں جاری رہتی ہیں،ایک ایونٹ ختم نہیں ہو تا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے اورجاری ایونٹ کے خیروعافیت سے گزرنے کے لیے ہر وقت دعائیں کی جاتی ہیں،لاہور میں ابھی پی ایس ایل کا ایونٹ گزرا ہے پنجاب حکومت، پولیس اور دیگر ادارے دن رات ان کو ششوں میں مصروف تھے کہ یہ دن خیرت سے گزر جائیں،پی ایس ایل گزرا ہے اور رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع شروع ہو گیا ہے جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 200سے زائد ممالک سے شرکت کرنے والے فرزندان توحیدکی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کو ایک بار پھر الرٹ رہتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود رہنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کو لاہور میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات فراہم کرنے کا بھی علیحدہ سے ٹاسک دے رکھا ہے، دوسری جانب آسٹریلیا کرکٹ ٹیم کے اگلے ماہ لاہور ٹیسٹ میچ کے لیے ابھی سے انتظامات کو حتمی شکل دینے کی بھی ہدایت مل چکی ہے،اگر دیکھا جائے تو پولیس کو ان ڈیوٹیوں سے فراغت ہی کہاں ملتی ہے کہ وہ امن و امان کو بہتر بنانے میں بھی کوئی حکمت عملی مرتب کرسکیں،خبر ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سی سی پی او لاہور فیاض احمد دیو کو ناکام بنانے کے لیے آجکل نیوز چینل کے کچھ نمائندگان جان بوجھ کر جھوٹی خبریں چلا رہے ہیں کہ شہر میں ڈکیتی چوری کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جو کہ درست نہیں ہے،پہلے پہل صدر کے علاقہ میں ڈاکوؤں کے ناکہ لگا کر لوٹنے اور شہریوں کو گولی مارنے کے واقعات معمول بن گئے تھے جو کہ بہتر کمانڈنگ کی وجہ سے اب ان وارداتوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے ان وارداتوں کے خاتمے پر ہمیں لاہور پولیس کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے نہ کہ سنسنی پھیلائی جائے، سابق ادوار میں ایسی سنسنی پھیلا کر مرضی کا رزلٹ حاصل کر لیا جاتا تھا جو کہ اب ممکن دکھائی نہیں دیتا،اصل خبر یہ ہے کہ ڈکیتی کے دوران قتل کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اورگزشتہ دو ماہ کے دوران کوئی سنگل واقع ایسا نہیں ہے جو پولیس کے لیے کسی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہو، اخبارات اور ٹی وی چینلز میں جرائم کی خبروں کے حوالے سے سنسنی پھیلانے والوں کے ہاتھ ندامت کے سوا کچھ نہیں آئے گا اس لیے بہتر یہ ہی ہو گا کہ ہمیں ایک ایماندار اور درویش صفت انسان کا ساتھ دینا چاہیے اس سے اللہ اور اس کا رسول بھی راضی ہو گا، کچھ کرپشن اور سینہ زوری کی بھی خبریں بیان کرتے چلیں آئی جی پولیس پنجاب نے گوجرانوالہ میں تعینات ایک ایس پی کو تبدیل کرکے سرگودھا بھجوا دیا ہے حالانکہ ان کے بارے میں ایک عرصہ سے مبینہ طور پر کرپشن کی خبریں سامنے آرہی تھیں انھیں تبدیل کرنے کی بجائے او ایس ڈی کرنے کی ضرورت تھی سابق سی سی پی او لاہور بی اے ناصر نے انھیں جب وہ گلبرگ میں بطور اے ایس پی تعینات تھے کرپشن کی شکایت پر فارغ کر کے ایک رپورٹ اس وقت کے آئی جی کو بھجوائی تھی جس پر انھیں صوبہ بدر کردیا گیا تھا مگر سفارش کے بل بوتے پر یہ موصوف پنجاب میں دوبارہ آنے اور تعیناتی لینے میں کامیاب ہو گئے، اسی طرح لاہور میں بھی 3ایس پیز کے بارے میں کرپشن کی بڑی واضح شکایات پائی جاتی ہیں جس سے لاہور پولیس کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے، یہ ایس پی صاحبان اتنے طاقتور جانے جاتے ہیں کہ انھیں تبدیل کرنا کمانڈر کے بس کی بات نہیں ہے ایسے افسران کی تعیناتی اور وہ بھی سینہ زوری سے ایک طرف اداروں کی بربادی کا باعث بنتی ہے تو دوسری جانب،غیرجانبدار کمانڈنگ بھی داغدار ہوتی ہے اور ایمانداروں افسروں کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔، سی سی پی او لاہور کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا فوری خاتمہ کریں تاکہ لاہور پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جاسکے کیونکہ بہت سارے افسران کا اب یہ کہنا ہے کہ اس ایمانداری کا کیا فائدہ جوایمانداروں اور بری شہرت کے حامل افسروں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہوں۔