ڈاکٹر محمد علی نقوی،میرا استاد!

ڈاکٹر محمد علی نقوی،میرا استاد!
ڈاکٹر محمد علی نقوی،میرا استاد!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اپنے گھر بھلہ سٹاپ سے شیخ زید ہسپتال جاتے ہوئے 7 مارچ1995ء کویتیم خانہ چوک میں شہید کردیا گیا، وہ عظیم تنظیمی، سیاسی اور سماجی رہنما تھے،  میرا ان سے بہت قریبی تعلق رہا ہے، ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔میں کوئی تنظیمی نہیں،بس چھوٹا سا کاروباری آدمی تھا۔ حوزہ علمیہ جامعۃالمنتظر کے ساتھ میر ا مذہبی اورروحانی تعلق پید اہوا، جو وقت گذرنے کے ساتھ مزید گہرا ہوتا چلا گیا،ان دنوں اس عظیم اسلامی درسگاہ کی انتظامیہ میں شامل ثاقب نقوی سے رابطہ ہوا۔ضیا الحق کا مارشل لائی دور تھا، میری کچھ تنظیمی فعالیت بڑھی تو مجھے تحریک جعفریہ پاکستان کی مرکزی کونسل کا ممبر بنا دیاگیا، یہیں ایک دبلے پتلے پھرتیلے ڈاکٹر محمد علی نقوی سے بھی رابطہ استوار ہوا۔ وقت گذرنے کے ساتھ مجھے سمجھ آیا اور یہ بات آج بھی بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایسا متدین،فہم و فراست کا حامل،دانشمند،اورمتحرک آدمی میں نے نہیں دیکھا، بہت جلد ان سے میر ی علیک سلیک قربت میں بدل گئی۔ہم نے ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی دروس ٹاؤن شپ میں شروع کردیے۔درس کے لئے آتے تو ہمدرد چوک میرے گھربھی ڈاکٹر صاحب کا آنا جانا شروع ہوگیا۔
 میں آج بھی دل سے محسوس کرتا ہوں کہ تحریک جعفریہ کوتنظیمی اور سیاسی طور پر جو عروج ملااس میں بنیادی قوت اورمحور بلاشبہ قائد ملت جعفریہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی ہی تھے، جن کے گرد تمام تنظیمی نظام چلتا تھا،لیکن ہماری بدقسمی کہ وہ 5۔اگست 1988ء کو شہید کردیے گئے۔اس کے بعد تنظیمی اداروں کے اعتماد سے قیادت شہید قائد کے دست راست علامہ سید ساجد علی نقوی کے پاس آئی مگر تنظیمی امور میں بلاشبہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی مشاورت اور جدوجہد کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وقت گذرتا گیا،ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری قربتیں مزید بڑھنے لگیں جبکہ ان کی تنظیم سازی کے حوالے سے کاوشیں بہت نمایاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔


میں سمجھتا ہوں کہ علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی جگہ متبادل نہ آیا، لیکن شہیدڈاکٹر کی شہادت کے بعد میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ان کا متبادل ہمیں دستیاب نہ ہوا اور تنظیمی ڈھانچہ بکھرنے لگا۔قائد ملت جعفریہ کی شہادت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی شہادت نے مختلف تنظیمات پر منفی اثرات چھوڑے۔ راقم الحروف ان کی مشاورت اور رہنمائی سے سیاسی میدان میں شہید قائد کے دور سے متحرک تھا اور اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی پوری کو شش کی۔ میڈیکل کے شعبے کا ماہر ڈاکٹر محمد علی نقوی خداداد صلاحیتوں کا مالک اور خاتم الانبیاء کا حقیقی عاشق تھا۔ جو پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے لئے مسلمہ اسلامی نظام کے نفاذ اور کسی بھی مکتبہ فکر کو نظرانداز نہ کرنے کی بات کرتا تھا۔ ان کی زندگی کے چند اہم واقعات بھولنا میرے لئے نا ممکن ہے۔


ہماری بہت سی ملاقاتیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے اکٹھے ہوتی تھیں۔میں پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور سے ہی سیاسی کارکن ہوں۔ ان دنوں تحریک جعفریہ بھی اپنی سیاست شروع کرچکی تھی تو ہم نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی  اس حوالے سے تحریک جعفریہ پاکستان کا  پہلا ’سہ جماعتی‘ سیاسی اتحاد تحریک استقلال اورپاکستان عوامی تحریک کے ساتھ ہوا۔ جس کے اکثر اجلاس ڈاکٹر طاہرالقادری کی میزبانی میں تحریک منہاج القرآن سیکرٹریٹ ماڈل ٹاون میں منعقد ہواکرتے تھے۔ ایک بار ڈاکٹر محمد علی نقوی اور میں ان کے پاس اجلاس کے لئے گئے تو انہوں نے ’سہ جماعتی اتحاد‘ کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی۔ان کی گفتگو کے دوران ہی ڈاکٹر محمد علی نقوی نے کچھ کہنا چاہا تو ڈاکٹر طاہر القادری نے انہیں روک دیا، پھر انہوں نے اپنی باری پر گفتگو کی تو عوامی تحریک کے سربراہ بہت متاثر ہوئے اورچند ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے’سہ جماعتی اتحاد‘ کی تنظیم سازی میں مصروف افراد سے کہا ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تجاویز پر عمل کیا جائے۔ ان کی فکر اوربصیرت متاثر کن باتیں مدلل ہوتی ہیں،  پھر تینوں جماعتوں کے اتحاد کی مشترکہ تنظیم سازی کا کام ہی ان کو سونپ دیا گیا۔


جب تحریک جعفریہ نے سیاسی اقدامات کرنا شروع کئے تو ہماری ملاقاتیں پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن اورخواجہ طارق رحیم سے ہوئیں، ان کی خواہش تھی کہ تحریک جعفریہ سے انتخابی اتحاد نہیں،سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی جائے۔ڈاکٹر صاحب سے مشاورت سے یہی طے پایا کہ ہمیں کچھ بھی فائنل کرنے سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات کرنی چاہیئے۔ اپنے فیصلے سے ہم نے پیپلز پارٹی کے رہنماسردار فاروق احمدخان لغاری،خواجہ طارق رحیم اور احمد سعید اعوان کو مطلع کردیا کہ حتمی بات چیت کے لئے وہ بے نظیر بھٹو سے ملنا چاہتے ہیں۔اتفاق ہونے پرمیں ڈاکٹرمحمد علی نقوی کے ہمراہ کراچی پہنچا۔تمام معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا تو طے ہوا کہ ہم محترمہ بینظیر بھٹو سے ملے بغیر کسی چیز کو فائنل نہیں کریں گے۔ملاقات شروع ہوئی، میں نے ڈاکٹر محمد علی نقوی کا تعارف محترمہ بے نظیر بھٹو سے کروایا تو پوچھنے لگیں!کیا،یہ آپ کے بیٹے ہیں؟ میں نے کہا،‘ نہیں! یہ میرے استاد ہیں‘۔ وہ حیرت زدہ ہوئیں۔ بہرحال دونوں جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے حوالے سے بات چیت شرو ع ہوئی، اس کی تفصیلات خود نوشت ”سیاسی بیداری“ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں، پھر بینظیر بھٹو نے فوری فیصلہ کر لیا کہ تحریک جعفریہ اور پیپلز پارٹی انتخابی اتحاد کا حصہ ہوں گی۔ملاقات کے بعد جب ہم بلاول ہاوس سے باہر نکلے تو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے بینظیر بھٹو کی قوت فیصلہ کو سراہا۔کہنے لگے بینظیر بھٹو نے ہمارے دلائل کی بنیاد پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بجائے، انتخابی اتحاد کا فیصلہ فی الفور کرلیا، اور بات کو ٹال مٹو ل اور مشاورت کی نذر نہیں کیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے)میں دونوں جماعتوں کے ساتھ تحریک استقلال اور مسلم لیگ(قاسم گروپ) بھی شامل تھیں اورفیصلہ ہو ا کہ بے نظیر بھٹو،علامہ ساجد علی نقوی،ائیرمارشل اصغر خان، ملک قاسم بائی روٹیشن آئندہ اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔


جدوجہد کے اس سفر میں ڈاکٹر محمد علی نقوی دوبار گرفتار بھی ہوئے۔ لیکن دونوں بارنوجوانوں کے احتجاج کے بعد انہیں رہا کروالیا گیا۔ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی کو خطرات تھے۔جس پر تنظیمی دوستوں اور خاندان کے افرا د کا اصرار تھا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔لشکر جھنگوی  والے آپ کا پیچھا کر رہے ہیں، آپ کی جان کو خطرہ ہے مگر وہ خود کہتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ان کی موت شہادت سے ہی ہوگی۔ وہ بزدلی کی زندگی نہیں، یقین کی شہادت چاہتے ہیں انہوں نے کئی د وستوں اور مولانا صفدرحسین نجفی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات میں بھی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ملک چھوڑ کر ایران عراق جنگ کے دوران ایران کی طرف سے شہید ہونا چاہتے ہیں۔ ایک بار ہم بس حادثے میں جاں بحق ہونے والے حافظ آباد کے تحریکی کارکن کی تعزیت کرکے لاہور واپس آرہے تھے تو گوجرانوالہ میں ایک ہوٹل میں کھانا کی میز پر ہم نے یہی بات شروع کی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ آپ بیرون ملک چلے جائیں۔یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں شہادت کے لیے اگلے مورچوں پر جانا چاہتا ہوں۔
 میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اپنی شہادت کا کافی عرصے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور کئی بار کہہ چکے تھے کہ میں شہیدکردیاجاؤں گا۔اس حوالے سے انہوں نے اپنی وصیت بھی لکھ دی تھی۔ہم آج بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ان کے افکار زندہ کی شکل میں اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ 

مزید :

کامرس -رائے -کالم -