سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات،ربع صدی کا”مکالمہ“
”مکالمہ“ دراصل جناب ایس ایم ظفر کی پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کے ساتھ چوتھائی صدی میں مختلف اوقات میں ہونے والی گفتگو ہے کہ دنیا بھر میں ایک صدی کے دوران کیا کیا ہوا، کیا کیا واقعات رونما ہوئے۔ یہ ان کی زندگی بھر کی محنت کی کہانی ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب سے وقار ملک کی پہلی ملاقات تقریباً اڑتیس برس قبل ہوئی۔جب وہ ڈاکٹر تھے نہ پروفیسر بلکہ ایک نوجوان صحافی تھے۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور وقار ملک ان کی زندگی کے مختلف واقعات انٹرویو کی شکل قلم بند کرکے کالم کی صورت میں شائع کرتے رہے اور بعد ازاں ”مکالمہ“کے نام سے کتاب کی شکل دیدی۔یہ کتاب ایک صدی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت بھی ہے۔پروفیسر وقار ملک نے جناب ایس ایم ظفر سے مختلف ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگوکو مختلف ابواب کی صورت میں ایک مالا میں پرو دیا ہے۔ یہ کتاب جناب ایس ایم ظفر کی وہ خود نوشت ہے جووہ خود بھی لکھتے تونہ لکھ پاتے۔پروفیسرڈاکٹر وقار ملک فی البدیہہ سوالات کی صورت میں جناب ایس ایم ظفر کی زندگی کے بہت سے شاندار پہلو سامنے لائے ہیں۔میں اس کتاب کو جناب ایس ایم ظفر کی ایک مکمل سوانح حیات بھی کہوں گا، کیونکہ اس کتاب کے فاضل مصنف نے جناب ایس ایم ظفر کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جو انہوں نے وا نہ کیا ہو۔
جناب ایس ایم ظفر ایک ملاقات کے دوران پروفیسر وقار ملک کو بتاتے ہیں کہ ان کے مالی حالات بہت پتلے تھے اور والد صاحب اس قابل نہیں تھے کہ سکول کے بعد کالج کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اُٹھالیتے۔ 1945 ء میں شکر گڑھ سے میٹرک کیاتو ان کے والد نے کہا کہ بیٹا! اب آپ کالج جانے کی بجائے کام کریں اور گھر کو چلانے کے لئے میری معاونت کریں۔ تو والدہ صاحبہ نے اپنا زیور بیچ کر انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام پاکستان سے دو سال پہلے داخل کروایا۔ بعد ازاں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ایس ایم ظفر اپنی والدہ ماجدہ کے اس احسان کو نہ بھولے اور انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نام کے ساتھ پیسہ بھی کمایا اور اپنی والدہ کے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر فاطمہ ایجوکیشن سوسائٹی قائم کی اور سینکڑوں ذہین ترین طلبا و طالبات کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد ملک ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایس ایم ظفر کا شمار ان وکلا ء میں ہوتا ہے،جنہیں کبھی کلائنٹ کی تلاش نہ رہی بلکہ ہمیشہ کلائنٹ ان کی تلاش میں رہتے تھے، لوگ انہیں اپنا وکیل کرنے کے لئے ریفرنس تلاش کرتے رہتے تھے۔ ان کے آفس میں حسب ِ معمول میرا ان کے ساتھ ”مکالمہ“ جاری تھا کہ ان کے سیکرٹری غلام نبی نے بتایا کہ طاہرہ سید (جو کہ ان کی اہلیہ کی چھوٹی ہمشیرہ ہے) کا فون ہے۔طاہرہ سید صاحبہ نے ایک بیوروکریٹ جو کہ بہت بڑے زمیندار بھی تھے کا مقدمہ لڑنے کی سفارش کی۔تھوری دیر بعد وہ بیورو کریٹ بھی تشریف لے آئے۔ طاہرہ سید صاحبہ نے بھی آپ سے بات کی ہوگی۔ ظفر صاحب نے کہا۔ ہاں! طاہرہ کا فون آیا تھا۔ میں آپ کو آپ کے بہتر مفاد میں بتلا رہا ہوں کہ زمینوں کے مقدمات کے حوالے سے وہ بڑے باصلاحیت وکیل ہیں۔آپ اعتماد کے ساتھ انہیں میرے حوالے سے مل لیجئے گا۔ اچانک انہوں نے اپنے ساتھ لایا ہوا نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس ظفر صاحب کی میز پر رکھ کر کھولا،جس میں کم از کم ایک ڈیڑھ کروڑ روپے تو ہوں گے۔کہنے لگے جتنی فیس آپ کہیں گے میں ایک روپیہ بھی رعایت کرنے کے لئے نہیں کہوں گا اور پھر میرے مقدمے کا جو نتیجہ نکلے گا وہ بھی مجھے منظور ہوگا، مجھے مقدمہ ہارنے کا بھی قطعی کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ پلیز! آپ ہی میرا مقدمہ لڑیں۔ ایس ایم ظفر زیر لب مسکرائے فرمانے لگے بھائی میں آپ کے بہترین مفاد میں ان وکیل صاحب کے پاس بھجوا رہا ہوں جن کا اس قسم کے مقدمات میں بڑا نام ہے، جب آپ کے مقدمے کا فیصلہ ہوگا تو آپ مجھے اچھے لفظوں میں یاد کریں گے۔
پروفیسر وقار ملک لکھتے ہیں میں نے ایس ایم ظفر صاحب سے کہا، ایک تو آپ کی سسٹر ان لاء کی سفارش تھی دوسرا وہ غیر معمولی فیس دینے کے لئے بخوشی تیار تھا۔ اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ مجھے مقدمہ کے نتیجہ کی بھی کوئی پروا نہیں بس آپ ہی ان کا مقدمہ لڑیں۔آپ نے پھر بھی اس کا مقدمہ نہیں لیا۔ فرمانے لگے وقار ملک! اب مجھے پیسوں میں وہ مزا نہیں آتا جو آپ کے سوالات اور ان کے جوابات دینے میں آتا ہے۔یہی ایس ایم ظفر اپنے بہت سارے دوستوں اور عزیزوں کے زندگی بھر مفت مقدمات بھی لڑتے رہے۔ ایس ایم ظفر ایک بلندپایہ قانون دان ہی نہیں،بلکہ ایک بہترین انسان بھی تھے۔انہوں نے تقریباً 60 سال تک عملی وکالت میں حصہ لیا اور لاہور کے سول کورٹ سے لے کر عالمی عدالت انصاف تک مقدمات میں پیش ہوئے۔ ایس ایم ظفر نے ڈاکٹر عبد القدیر خان (مرحوم) کا مقدمہ ہالینڈ کی انٹرنیشنل عدالت سے جیتا تھا۔
1965ء میں وہ وفاقی وزیر قانون بن گئے۔ مختصر وقت میں اس منصب تک رسائی کسی شخص کے لئے بہت بڑی کامیابی خیال کی جاتی ہے۔ اس طرح انہوں نے قانون کے مسائل کو کئی زاویوں سے دیکھا۔ ایس ایم ظفر کا جانشینی کا پہلا مقدمہ نامور شاعر فیض احمد فیض کے بڑے بھائی سول جج طفیل احمد کی عدالت میں پیش ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ وکالت کتنا اچھا اور اعلی پیشہ ہے، جس میں روپیہ پیسا کوئی اور لگاتا ہے،لیکن علم اور مہارت وکیل حاصل کرتا ہے۔وکیل قانون کے ذریعے انصاف دلا سکتا ہے وہ عدالت میں قانون کی بالا دستی کا مدد گار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ دوران عدالتی کارروائی وہ خود بھی قانون کی پابندی کرے۔ صوفیا ء کرام کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے صوفیاء کرام انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور یہ ان کی انسان دوستی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی گئے لو گوں کے دل و نگاہ ان کے لئے فرش راہ ہو گئے۔ 2011 میں ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک نے اپنی کتاب ”مکالمہ“ لکھ کر جناب ایس ایم ظفر کی صورت میں ایک اچھے اور صوفی منش انسان سے پڑھنے والے کا قلبی، روحانی اور عقیدت کا رشتہ قائم کر دیا ہے۔
جناب ایس ایم ظفر بھرپور زندگی گزارنے کے بعدگزشتہ سال لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 19اکتوبر 2023ء کی ایک ٹھنڈی شام کو قانون اور انسانی حقوق کی ایک آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ جناب ایس ایم ظفرایک طرح سے وکالت سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے لیکن مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کی کتاب ”مکالمہ“ کی تکمیل کا انتظار کررہے تھے اور جونہی یہ کتاب چھپ کر ان کے سامنے آئی تو انہوں نے کہا ”سنبھال وقار کتاب اپنی ہم تو اپنے گھر چلے“