انتخابات سے کیاتبدیلی متوقع ہے؟
آئندہ ہفتے کے روز تبدیلی کا خواب سجائے عوام پولنگ سٹیشن جائیں گے۔ اپنا ووٹ اپنی پسند کے امیدوار کو ڈالیں گے، خواہش تو ہر ایک کی ہے کہ جو بھی جماعت یا جماعتیں حکومت سازی کریں وہ ایسی حکومت تشکیل دیں جو اس ملک میں تبدیلی لا سکے۔ اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت طرز حکمرانی میں تبدیلی چاہتی ہے۔ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے۔ تھانے، کچہری کے نظام میں ایسی تبدیلی لائے کہ عام لوگوں کی شکایت فوری رفع ہو سکے۔ ان کی عزت محفوظ رہے، انہیں تحفظ حاصل رہے، انہیں ترقی کے مواقع مل سکیں ۔ قومی وسائل میں انہیں بھی شریک کیا جائے، وغیرہ۔ پاکستان کے غریب عوام اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے اور کبھی نہیں مانگتے۔ اس ملک کے وسائل پر قابض مٹھی بھر افراد نے عوام کی بھاری اکثریت کو مختلف حیلے بہانوں اور ہتھکنڈوں سے سال ہاسال سے اپنی اناﺅں کا غلام بنایا ہوا ہے۔ ایسا غلام جو ان کے ہی اشاروں پر ناچتا رہتا ہے۔ نسلیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کی قسمت تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ اپنی اسی قسمت کی تبدیلی کے لئے یہ لوگ تبدیلی کا ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
سنہری حروف ایک سہ ماہی میگزین ہے جو اسلام آباد سے شا ئع ہوتا ہے۔ میگزین نے اپنی تازہ اشاعت میں انتخابات نمبر شائع کیا ہے ۔ اس شمارے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش رکھنے والے اور کام کرنے والے دانشوروں، صحافیوں اور این جی اوز میں کام کرنے والوں کی آرا شامل کی ہیں۔ ان لوگوں سے درجن بھر سے زیادہ سوالات کئے گئے تھے جن میں ایک سوال تھا ” کیا عام انتخابات 2013 ءریاست اور عوام کے لئے بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے“ ۔ مجھے آج کے کالم میں موقع کی مناسبت سے اسی سوال سے زیادہ دلچسپی ہے۔ مہ پارہ صفدر لندن میں رہتی ہیں، بی بی سی سے وابستہ ہیں۔ ان کا جواب ہے ” انتخابات کے ذریعے ایک دم سے تبدیلی نہیں آتی، منقسم مینڈیٹ ہوگا، ہنگ پارلیمان ہوگی۔لوگوں کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ لوگوں نے اگر ذمہ داری کا ثبوت دیا تو ضرور تبدیلی آئے گی، افراد کی بجائے ادارے بنتے ہوئے نظر آنے چاہئیں “۔ اسلم خان اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں اور صحافی ہیں۔ وہ جواب دیتے ہیں ” آج 23 فروری ہے مجھے نظر نہیں آتا کہ انتخابات ہوں گے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ انتخابات ہوں گے تو کیا ہوگا۔ ہمارے آقا ولی نعمت وائسرائے امریکی سفیر نے کچھ دوستوں سے کہا کہ ہنگ پارلیمان ہوگی۔ کوئی تبدیلی نہیں آرہی ۔ جمع تفریق کر کے ہی لوگ واپس آئیں گے پھر ایک ملی جلی حکومت بن جائے گی مخلوط حکومتیں سب سے زیادہ بد دیانت ہوتی ہیں۔ جس طرح تبدیلی کے ہم خواہاںہیں، اس طرح کچھ نہیں بدلے گا۔ فخرو بھائی اچھے چیف الیکشن کمشنر ہیں اور صلاحیتوں والے ہیں۔ اپنے روحانی پیشواسیدنا برہان الدین کے کہنے پر آئے ہیں کیا وہ کراچی میں بلوچستان میںمنصفانہ غیر جانبدارانہ الیکشن کر واسکیں گے۔ آزادانہ الیکشن کا غلغلہ صرف وسطی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں تک محدود ہوگا۔ باقی علاقوں میں ویسے ہی الیکشن ہوگا۔
مجیب الرحمان شامی پاکستان کے ایک جید صحافی اور دانشور ہیں۔ طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی اور قومی ڈائجسٹ کے مدیر ہیں۔ ٹی وی چینل دنیا پر روز انہ مبصر کی حیثیت سے پروگرام کرتے ہیں۔ لاہور میں رہائش رکھتے ہیں۔ لاہور پاکستان کی سیاست کا اہم مرکز ہے۔ ان کا جواب ہے ”عام اندازہ یہ ہے کہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوں گے مگر خواہش یہ ہے کہ یہ بڑی تبدیلی لائیں۔ اگر انتخابات کے ذریعے تبدیلی نہیں آئے گی خواہش رکھنے والوں کو سخت دھچکا پہنچے گا اور یہ ہمارے لئے کسی طور پر سود مند نہیں ہوگا“۔
احمد بلال محبوب انتخابات کے سلسلے میں ایک این جی او ”پل ڈاٹ “اسلام آباد کے سربراہ ہیں۔اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں ” جمہوریت میں اچانک بڑی تبدیلیاں نہیں ہوتیں۔ جمہوریت میں بڑے انقلاب نہیں آتے جو لوگ انقلاب کی بات کرتے ہیں یا تو وہ نا سمجھ ہیں یا پھر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جمہوریت میں نظام قائم رہتا ہے افراد بدل جاتے ہیں اس طرح بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اگر دیانت دار اور اہل لوگ آجائیں۔ پھر کرپشن کے رجحان میں کمی آئے گی۔ اچھی قیادت نہ آئی تو صورتحال ویسی ہی رہے گی“۔
وسعت اللہ خان پاکستان کے معروف صحافی ہیں۔ بی بی سی سے وابستہ ہیں۔ اکثر سفر میں رہتے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں۔ ان کا جواب ہے ” اگر سیاسی عمل چلتا رہتا ہے تو تبدیلی آتی ہے۔ کبھی تیزاور کبھی آہستہ ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ نے الیکشن کروایا اور تبدیلی کے خواہاں ہو گئے ۔ یہ اس مریض کی مانند ہے جو صرف ایکسرے سے ہی علاج کی تمنا کرے۔ الیکشن وہ نلکا ہے جس سے جمہوریت کا پانی آتا ہے۔ نلکا لگتا ہے تو پہلے کیچڑ ، پھر گدلا پانی اور آخر میں صاف پانی آتا ہے۔ اسی طرح الیکشن اور جمہوریت میں بہتری آئے گی”۔
طارق بٹ اسلام آبادمیں صحافی ہیں۔ تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ” پاکستان میں کسی بڑے انقلاب کی توقع نہ کریں۔ سیاست میں بھی بڑی تبدیلی آنے کی بھی امید نہیں ۔ کچھ بہتری کی خواہش کی جاسکتی ہے۔ شائد وہ ہو بھی اور اس بہتری کی تعریف اپنی اپنی ہے۔ اگلی حکومت جو پانچ سال پورے کرے اور ملک میں توانائی (بجلی۔ گیس) کے بحران پر 70-80فیصد قابو پالیں تو یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔ عام آدمی کے لئے بجلی نہ ملنا مسئلہ ہے۔ اس سے انڈسٹری متاثر ہوتی ہے اور بے روزگاری پھیلتی ہے۔ معاشی بد حالی ہوتی ہے“۔
سلیم صافی اسلام آباد میں صحافت کرتے ہیں۔ ایک ٹی وی پر ایک پرگرام کرتے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے بارے میں باریک بینی سے سوچتے ہیں اور معلومات رکھتے ہیں۔ وہ جواب دیتے ہیں ” کسی بڑی اور جوہری تبدیلی کا ذریعہ تو نہیں بنیں گے۔ البتہ بہتری کی طرف پیش رفت ضرور ہوگی اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس تناظر میں کسی بڑی تباہی کا باعث نہ بھی بنیں اس کا انعقاد ہی ملک کے لئے نیک شگون ہے“۔
نواز رضا اسلام آباد کے ایک کہنہ مشق تجربہ کار صحافی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ” پہلی بار تو فوجی آمر کی موجودگی میں اپنی مدت پوری کی۔ اب دوسری بار اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ اب اسمبلی توڑنے کا اختیار خود وزیر اعظم کے پاس ہے اس لئے خوف کی تلوار جو ہر وقت حکومت پر لٹکتی تھی اس سے جان چھوٹ گئی ہے اور پارلیمانی نظام کو حکومت کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔ اس میں سوچ سمجھ کر فیصلے ہوتے ہیں اور دیر پا ہوتے ہیں۔ راتوں رات تو اس نظام میں تبدیلی نہیں آتی۔جو عوام کی رائے سے منتخب ہوں گے وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے پابند ہوں گے©©“۔
اسماعیل خان پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے موقر اخبار ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ” 2013ءکے انتخابات کوئی بڑی تبدیلی تو شائد نہ لاسکیں “ لیکن بہتری کی طرف شائد ایک قدم ضرور ہو“۔
طارق چوہدری اسلام آباد میں رہتے ہیں وہ کہتے ہیں ” کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ گزشتہ موجودہ اور آئندہ آنے والے دنوں کو سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بہت بڑی سیاسی تبدیلی نہیں آنے والی۔ جو جیت جائے گا اس میں اور نمبر 2پارٹی میں بہت تھوڑا فرق ہوگا۔ ہو سکتا ہے ایسے حالات ہوں کہ تمام جماعتوں کو مل کر حکومت بنانی پڑے۔ یہ حکومت تو پانچ سال پورے کر گئی ہے۔ اگلی حکومت پانچ سال پورے نہیں کرے گی اور قوم کو دوبارہ انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی بھی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہو گی اور شائد کسی جماعت کے پاس سادہ اکثریت ہو مگر حکومت بنانا اس کے لئے آسان نہیں ہوگا“۔
شہزادہ ذوالفقار کوئٹہ کے رہنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ©© ” جادو کی کوئی چھڑی ہے یا بجلی کا کوئی بٹن ہے کہ آپ دبائیں گے تو تبدیلی آجائے گی۔ یہ ایک چھلنی کا عمل ہے۔ بار بار کا عمل جب معاشرے کے تمام لوگ سیاست دان، فوجی، بیوروکریٹ ، عوام اس چھلنی میں سے گزریں کے تو ان کی تربیت ہوگی۔ ان کے رویوں میں بہتری آئے گی۔ بڑے عرصے بعد کسی آزاد حکومت نے اپنی مدت کو پورا کیا ہے۔ اگر اس طرح نظام چلتا رہا تو جماعتوں کی پالیسیوں کی قلعی کھل جائے گی۔ ان کے وزن کا پتہ چل جائے گا۔ اچھا برا علیحدہ علیحدہ ہوتا جائے گا۔ جو بھی پارٹی آئے گی اس کی مدت مکمل ہونی چاہئے۔ حال ہمارا یہ ہے کہ خرچے ہمارے شاہی ہیں اور نظام امداد پر چلاتے ہیں۔ فوج، سیاست دان اور بیوروکریسی تمام اس کے ذمہ دار ہیں ۔ قرض لے کر عیاشی کرنے والے ہیں ۔ یہ رویہ ہماری سیاست اور ریاست کو انتہائی کمزور کر چکا ہے “۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عام انتخابات2013ءریاست اور عوام کے لئے بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو ں گے؟....جواب میں راقم کی رائے ملاحظہ کریں : ” 2013ءکے عام انتخابات کسی بڑی توکجا، چھوٹی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ثابت نہیں ہوں گے©©“ ۔ ٭