سیاسی جماعتوں کو درپیش چیلنج
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ حکومت الیکشن کے پُرامن انعقاد کے لئے پُرعزم ہے۔ دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی تمام سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔وہ گورنر بلوچستان ذوالفقار علی مگسی سے ٹیلی فون پر بات چیت کر رہے تھے۔ دوسری جانب پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ شفاف انتخابات کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ پنجاب میں دنیا کا جدید ترین الیکشن انفارمیشن سسٹم تشکیل دیا ہے۔ جس کے ذریعے ضابطہءاخلاق کی پابندی سمیت پورے انتخابی عمل کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے سول سیکرٹریٹ میں پنجاب الیکشن انفارمیشن سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کراچی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کی سازش کرنے والے امریکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
آج جب انتخابات کے انعقاد میں صرف چار دن باقی رہ گئے، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اب بھی کسی نہ کسی حلقے کی جانب سے انتخابات کے التواءکی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اسی لئے جناب صدر آصف علی زرداری کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ پورے ملک میں اب الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے حسبِ توفیق اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے، حتیٰ کہ وہ ساری جماعتیں بھی جو بدقسمتی سے دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہیں ۔ جن کے بہت سے کارکن اس مہم میں اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ بھی کسی نہ کسی انداز میں ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچا رہی ہیں اور امید ہے ووٹر ان کی حیثیت کو جانچ پرکھ کر ہی ان کے حق یا مخالفت میں فیصلہ کریں گے۔ پنجاب میں انتخابی مہم نسبتاً پُرجوش ہے اور باقی صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پنجاب کی انتخابی مہم کو پُرامن بھی کہا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ق)، جمعیت علمائے اسلام (ف) پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں۔ ایک ایک دن میں کئی کئی جگہوں پر جلسے ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم9 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے پہلے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے، جو سیاسی جماعتیں عام جلسے نہیں کر پا رہیں،یا نہیں کرنا چاہتیں۔ اُن کی زبردست اشتہاری مہم جاری ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اُن کا پیغام بھی گھر گھر پہنچ رہا ہے۔ اس لئے انہیں یہ گِلہ بہرحال نہیں ہونا چاہئے کہ اُن کا پیغام ووٹروں تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ اصل بات تو ووٹروں کو اپنے مو¿قف اور نقطہءنظر سے آگاہ کرنا ہے۔ چاہے وہ جلسوں کے ذریعے پہنچایا جائے یا کسی اور ذریعے سے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے ووٹروں کو مثبت پیغام بھیجیں، جس کی بنیاد پر وہ ووٹروں سے ووٹ طلب کر سکیں۔ کسی دوسری جماعت کی منفی سرگرمیوں کو اُجاگر کر کے یا ماضی کی کچھ باتوں کو اُچھال کر ووٹروں کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنا ذرا مشکل کام ہے۔ جو سیاسی جماعتیں گزشتہ پانچ سال کے دوران وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے عوام کے لئے جو جو خدمات انجام دیں، اُن کو اُجاگر کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور مسلم لیگ (ق) وفاق میں حکمران رہی ہیں۔ ان جماعتوں نے صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور کسی حد تک بلوچستان میں بھی حکمرانی کی۔ بلوچستان میں جے یو آئی (ف) کے علاوہ بعض علاقائی جماعتیں بھی شریکِ اقتدار تھیں۔ پنجاب میں شروع میں دو جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جبکہ آخری برسوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی، یوں اگر دیکھا جائے تو اس وقت جو بڑی جماعتیں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی انداز میں شریک اقتدار رہی ہیں۔
تحریک انصاف نے البتہ آج تک اقتدار کا ذائقہ نہیں چکھا اور انتخابی مُہم کے دوران اس کے سربراہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ جیت کر نیا پاکستان بنائیں گے، جو سیاسی جماعتیں حکومت کرتی رہی ہیں۔ اُن کے دعوو¿ں کو ان کے ماضی کی روشنی میں پرکھنا آسان ہے۔ وہ آج جو دعوے کر رہی ہیں، ووٹروں کو دیکھنا چاہئے کہ جب اُن کی حکومت تھی تو وہ کیا کیا کارنامے انجام دیتی رہیں جو جماعتیں اپنے دورِ حکمرانی میں عوام کے فائدے کے کوئی کارنامے انجام نہ دے سکیں، اُن کے الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے ووٹروں کو پوچھنا چاہئے کہ اگر اُنہوں نے پانچ سال میں کچھ نہیں کیا تو اگلے برسوں میں اُن سے کیونکر خوشگوار توقعات اور اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ بعض سیاسی جماعتیں ووٹروں سے جذباتی اپیلیں کر رہی ہیں، لیکن اُنہوں نے ان کے لئے اپنے دورِ اقتدار میں کیا کارنامے انجام دئیے۔ اس کا تذکرہ نہیں کر رہیں۔
جو انتخابی مہم اس وقت جاری ہے۔ اس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) ایسے مسائل کو بھی اٹھا رہی ہیں۔ جن کا تعلق خارجہ پالیسی، خصوصاً امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے ہے۔ اس لئے ان جماعتوں میں سے اگر کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو توقع کی جانی چاہئے کہ وہ خارجہ پالیسی میں مثبت تبدیلی لائیں گی۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ماضی میں اونچ نیچ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ کبھی یہ بہت اچھے ہوتے ہیں، کبھی بہت نچلی سطح پر چلے جاتے ہیں۔ کبھی دونوں ملکوں میں گاڑھی چھنتی ہے اور کبھی ہماری قیادت کو گِلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ امریکہ ہمارے ملک میں ناپسندیدہ مداخلت کرتا ہے۔ اس انتخابی مہم میں بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات زیرِ بحث ہیں۔ عمران خان جلسوں میں علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ انتخاب جیت کر وزیراعظم بن گئے تو ڈرون طیارے گرانے کا حکم دیں گے۔ اب اس بات سے قطع نظر کہ وہ انتخاب جیت کر ایسا کر پائیں گے یا نہیں، یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کے بعد ہمیں خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہوگی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی از سر نو غور کرنا ہو گا۔ امید کرنی چاہئے کہ سیاسی جماعتیں عام جلسوں میں جو اعلان کر رہی ہیں اقتدار ملنے کی صورت میں وہ اپنے ان اعلانات کی لاج رکھیں گی اور ملکی مفاد میں بہترین فیصلے کریں گی۔ امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کا تعلق بہرحال ایک نازک موضوع ہے اور کوئی بھی فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ نئی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہونی چاہئے انتخابی مہم کے جذبات اپنی جگہ، الیکشن کے بعد معروضی حالات اور تلخ حقیقتیں حکومت کے سامنے ہوں گی۔ اس وقت جوش نہیں، ہوش سے فیصلے کرنے ہوں گے۔ بہرحال صدر آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر کہ الیکشن سبوتاژ کرنے والوں کے عزائم ناکام بنا دیں گے، عوام کا حوصلہ بڑھایا ہے۔