جرم وگناہ کی تشہیر اور میڈیا

جرم وگناہ کی تشہیر اور میڈیا
جرم وگناہ کی تشہیر اور میڈیا
کیپشن: m altaf qamar

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

"چوہنگ سے چند روز قبل اغواءہونے والے کو بیوی نے بیٹے سے مل کر قتل کیا۔ جائیداد کا تنازعہ تھا"۔"لاہور کی خاتون سے میاں چنوں میں تین افراد کی زیادتی"۔ "گلشن راوی میں مخالفین کی گھر میں گھس کر فائرنگ، ماں بیٹی سمیت تین افرا د قتل"۔"اراضی تنازعہ پر نوجوان قتل ، مرتضیٰ کھر اور بلال کھر کے خلاف مقدمہ"۔"ڈکیتی مزاحمت پر خاتون زخمی "۔"اتھرے ڈاکو شہریوں کو لاکھو ں کا" چونا "لگاگئے ، پولیس ناکام "۔"بیوی نے بیٹے اور بیٹی سے مل کر خاوند کو قتل کر دیا، گھر میں دفن"۔"بیس افراد کا مینٹل ہسپتال پر دھاوا، گارڈز پر تشدد ، مریض اغوا"۔"وزیر اعلیٰ نے مظفر گڑھ میں زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ کی اپیل پر آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی"۔"دو افراد کی کمسن لڑکی سے زیادتی، بے ہوش بچی کو گھر کے باہر پھینک کر فرار ہو گئے "۔"آٹھ مسلح ڈاکو پیٹرول پمپ سے اڑھائی لاکھ روپیہ اور موبائل چھین کر فرار"۔"سالوں کی فائرنگ سے بہنوئی کے بھائی سمیت تین افراد زخمی "۔"ڈاکوﺅں نے میاں بیوی سے گن پوائنٹ پر زیورات ، نقدی اور موبائل چھین لیا"۔
یہ 5 مئی 2014کو لاہور سے چھپنے والے دو درجن سے زائد روزناموں میں سے صرف تین میں چھپنے والی جرم و جرائم پر مبنی درجنوں خبروں میں سے چند ایک کی سرخیاں ہیں۔اور یہ روزمرہ کامعمول ہے ۔جرائم کی خبروں کو نمایاں طورپر شائع کرنے کی ایک دوڑ ہے جو اخبارات میں پچھلے کچھ عرصہ سے زور وشورسے جاری ہے۔ ہر اخبار اس دوڑ میں دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں ہے ۔آج سے چند سال قبل صورت حال اس طرح نہیں تھی ۔ جرائم کی خبریں چھپتی ضرورتھیں ،لیکن اس قدر زیاد ہ نہیں ۔اب تو تقریباً تمام اخبارات نے اپنا ایک پورا صفحہ جرم و جرائم کی خبروں کے لئے وقف کر چھوڑا ہے ۔ نہ صرف ایک صفحہ بلکہ اکثر اخبارات جرم و جرائم کی کہانیوں پرمبنی ہفتہ وار رنگین سپیشل ایڈیشن چھاپتے ہیں ، جن میں نوے فیصد سے زائدکہانیاں قتل ، اغواءاور آبروریزی کے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جنہیں افسانوی اور ڈرامائی رنگ میں شائع کیا جاتاہے ۔اب یہاں سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے جرائم اب وقوع پذیر ہوناشروع ہوئے ہیں؟ کیا چند سال قبل تک پاکستان میں قتل ، لڑائی جھگڑے ، اغوا ، آبروریزی ، ڈکیتی ، راہزنی ، فراڈ اور دھوکہ بازی کے واقعات رونمانہیں ہوتے تھے ؟اگر ہوتے تھے تو اب ان کا ہونا کونسی نئی بات ہے ؟اور اُن کو اتنے نمایاں طور پر شائع کرنے کے پیچھے آخرکیا مقصد، منطق یا جذبہ کارفرماہے؟ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اب تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز بھی جرائم کی کہانیوں کو ڈرامائی شکل دے کر اپنے اپنے چینلز پر نشر کر رہے ہیں اور یہاں بھی چینلز کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کہانی تمام مرچ مصالحوں کے ساتھ لائی جارہی ہے اور اس ضمن میں اچھی ریٹنگ لینے کی جدوجہد جاری ہے ۔ جرم وگناہ کی خبروں کو اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلزمیں اتنے وسیع پیمانے پر اور مقابلے کے طور پر پیش کرنے کی اس دوڑ کے تین ممکنہ مقاصد ہوسکتے ہیں ۔
1۔ عوام کو جرم و گناہ کے بارے میں آگاہی دینا، تاکہ وہ ہوشیار رہیں اور اپنی حفاظت کا بند و بست کریں ۔
2۔ جرم و گناہ کے خلاف نفرت اور عبر ت کی فضاءپید ا کرنا ، تاکہ لوگ جر م کرنے سے باز رہیں۔
3۔ اخبارا ت کے صفحے بھرنا ۔ اور اب چونکہ مقابلہ اور مسابقت کی ہواچل پڑی ہے تو اُس میں دوسروں پر برتری حاصل کرنا۔
جرم و جرائم ، انسانی نفسیات اور ابلاغیات کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بغیر کسی خصوصی سبق اور ہدایت کے ،جو کہ اصل واقعہ کے بیانیہ سے کہیںزیادہ پُرزور اور پُر تاثیر ہو ،خرابیوں ، گناہوں اور جرائم کا بیان اُنہی خرابیوں ، گناہوں اورجرائم کی ترویج کا باعث بن جاتا ہے ۔عالمگیر مشاہدات بتاتے ہیں کہ جرم وگناہ کی تشہیر معصوم ذہنوں کو اُس طرف راغب کرنے کاذریعہ بن جاتی ہے، بجائے اس کے کہ اس سے بچا جائے ۔ خود پاکستان میں جوں جوںجرائم کی خبروں کی اشاعت بڑھتی جارہی ہے، جرائم بھی بڑھتے جارہے ہیں ۔ اگر کسی دن کسی کمسن لڑکی سے زیادتی کی خبرکسی اخبار میں شائع ہو تی ہے تو پھر اسی قسم کی خبروں کی ایک لائن لگ جاتی ہے ۔خاوند کے ہاتھوں بیوی یا بیوی کے ہاتھوں خاوند کے قتل کی ایک خبر کے بعد اس قسم کی خبریں تواتر سے آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ڈکیتیوں ، راہزنیوں اور چھینا جھپٹی کی خبروں کی اشاعت کے بعد اس قسم کے واقعات رونما ہونا کم نہیں ہوجاتے ،بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔ اوراگر اس قسم کے واقعات فی الحقیقت نہیں بھی بڑھتے تو اخبارات کی آپس کی مسابقت اور نئی سے نئی خبر لانے کی دھن میں اخبارات میں اس قسم کی خبروں کا ایک سیلاب آجاتا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جرائم بڑھ گئے ہیں ۔اس سے معاشرے میں خوف وہراس اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، ہر کوئی ہر وقت ڈراڈرا سا رہتا ہے،لیکن جرائم کا شکار ہونے سے بچنا عموماً اس کے بس کی بات نہیں ہوتی،اس صورتِ حال کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ منفی ہے۔انسانی ذہن بڑا عجیب و غریب ہے ۔ نیکی اور بھلائی کا راستہ چونکہ کٹھن اور بے کیف ہوتا ہے اس لئے اُس طرف کم ہی راغب ہوتا ہے۔گناہ اور جرم میں چونکہ سنسنی ، لذت اور بظاہرمالی یا جسمانی فائدہ نظر آتا ہے ،اس لئے اُس طرف جلدی راغب ہوجاتا ہے ۔
 انسانی ذہن میں جستجو کا ایک طاقتورعنصر موجود ہے ۔ نئی نئی باتوں کو جاننا، سننا، اُس کا تجربہ کرنایا اُن پر عمل کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔شراب ، منشیات ،تمباکو نوشی ، قمار بازی وغیرہ کی لت عموماً ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پڑتی ہے ۔ کمسن بچیوں سے زیادتی یا بھولی بھالی لڑکیوں کو کسی نہ کسی طرح بہلا پھسلا یا ورغلا کر اُن سے زیادتی کرنے اور اُس کی ویڈیو بنا کراُنہیں بلیک میل کرنے کی خبریں کچے لیکن اُبلتے ذہن کو گویاایک راستہ دکھانے کے مترادف ہے کہ یوں بھی ہوسکتا ہے ۔کسی کمسن بچی سے زیادتی انتہائی گھناﺅنا جرم ہے ۔اس کو خبر بنانا ایک آوارہ ذہن کو جنسی تسکین کاایک نیا اور آسان راستہ سجھانا ہے۔جرم و گناہ کے اس پہلوپر دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں لیکن ان سب کا لب لباب یہی ہے کہ جرم و گناہ اور سماجی اور معاشرتی بداخلاقی کے واقعات کی تشہیر ایسے واقعات میںاضافے کا باعث ہی بنتی ہے، کمی کا نہیں۔
اسی طرح جرم و جرائم اور گناہوں کی تشہیر خواہ کیسی ہی نیک نیتی سے نفرت اور عبرت دلانے کے جذبے کے تحت کی جائے اور اس کے لئے خواہ کتنا بھی موثر پیرایہ استعمال کیا جائے ،عمومی طور پر انسان ایسے واقعات سے سنسنی خیزی ، لذت، تفریح اور ترغیب تو کشید کر لیتا ہے ، نفرت اور عبرت نہیں ۔ راقم الحروف نے اپنی پینتیس سالہ پولیس سروس اور پچاس سالہ شعوری زندگی میں بہت کم ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں کسی نے کسی جرم اور گناہ کی سزا پانے والے کے حالات کو دیکھ کر عبر ت پکڑی ہو ۔اور اگر وہ اسی قسم کے کسی جرم و گناہ کا ارتکاب کرتاتھا یا کرنے کا ارادہ رکھتا تھاتو وہ اُس سے رک گیا ہو ۔جرم و گناہ کی سزا پانے والے تو بہت سے سدھرتے دیکھے گئے ہیں، لیکن اُن کا مشاہدہ کرکے اوراس سے عبرت و نصیحت پکڑنے والے بہت کم۔ماسوائے اس کے کہ سزا واقعی عبرت ناک ہو،تمام ماہرین اس بات پر تقریبا ً متفق ہیں کہ جرم و جرائم اور گناہوں کی تشہیر اُس جرم سے نفرت اورعبر ت کا باعث نہیں بنتی ۔جرم اور گناہ سے نفرت اور عبر ت دلانے کا طریقہ بالکل مختلف ہے ۔اور یہ وہ ہے جو دنیا بھر میںمصلحین اورمذہبی رہنما اور صوفیا آج تک کرتے چلے آئے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ سب سے پہلے اپنی ذات کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ وہ ایسی فضاءاور ماحول پید ا کرتے ہیں جس میں جرم اور گناہ کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یہ لوگ اپنے پیروکاروں کوجرم وگناہ کی لذتیں اور گلیمر دکھاکر نہیں بلکہ اُس کے منفی پہلوﺅں کو موثر انداز میں محسوس کروا کراُس سے نفرت دلاتے ہیں۔سگریٹ کی ہر ڈبی کے اوپر "خبردار!سگریٹ نوشی مضر صحت ہے" لکھ کر دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کم نہیں کی جاسکی، اور نہ ہی ڈاکوﺅں ،بدمعاشوں اور ظالموںپر فلمیں بنا کر اور آخر میں اُن کو پولیس یا کسی خیر کی قوت کے ہاتھوں کیفرکردار تک پہنچا کر،یا سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں آخر میں خرابی پیدا کرنے والے کرداروں کی شکست دکھا کر ڈکیتیاں کم کی جاسکیں اور نہ سماجی خرابیوں کی اصلاح ۔
زندگی بھرکے تجربات و مشاہدات اور مطالعے کے بعد راقم الحروف دیانت داری سے یہ سمجھتا ہے کہ جرم و گناہ اور سماجی اور معاشرتی برائیوں کی تشہیر ،خواہ وہ خبر کی صورت میں ہو یا فیچریا فلم کی صورت میں ، ان کے فروغ کا باعث تو بن سکتی ہیں ، ان کی حوصلہ شکنی کا نہیں ۔ میں انتہائی دردمندی کے ساتھ اپنے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کار پر دازان سے درخواست کرونگا کہ وہ جرم و جرائم کی خبروں کو اپنے اخبارات، رسائل اور ٹی وی چینلز پرکم سے کم جگہ دیں،اور کم از کم اس ضمن میں آپس میں مقابلہ اور مسابقت نہ کریں کہ معاشرے کے گھناﺅنے مناظر کی تشہیر کوئی وجہ اعزاز نہیں ۔ اس حقیقت کا ادراک تقریبا ًتمام ترقی یافتہ ممالک اور چند ترقی پذیر ممالک کر چکے ہیں۔آپ یورپ اور امریکا وغیرہ کے اخبارات دیکھیں ۔ جرائم ان ممالک میں بھی ہوتے ہیں لیکن آپ کو اُن کے کلوکلو بھر وزنی روزناموں میں جرائم کی کوئی خبر شاذو نادر ہی ملے گی ۔ سعودی عرب میں جرم کی خبر شائع کرنا جرم ہے ۔ وہاں اگر جرم سے متعلق کوئی چھوٹی سی خبر کسی اخبار میں غیر نمایاں جگہ پر آتی بھی ہے تو وہ اسی جرم پر عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کی خبر ہوتی ہے جبکہ بذات خوداُس جرم کی خبر کبھی بھی کسی بھی اخبار میں شائع نہیں ہوئی ہوتی ۔
یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، اگر خبر دینا ضروری ہی ہو تو جرم کی نہیں جُرم کی سزا کی خبردی جائے تاکہ لذت وترغیب کی بجائے نصیحت وعبرت ہو۔

مزید :

کالم -