پاکستان میں غریبوں کی زندگیوں کو بدلنے کی ضرورت
پاکستان میں امیر لوگوں کی تعداد میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ غربت کے جال میں پھنسے لوگوں کی تعداد بھی کوئی کم نہ ہے، بے روزگاری عام ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں مانگنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ایسے معذور لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں، جن کو دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کئی لوگ آئے دن غربت کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے غربت کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں غریب لوگ وہ ہیں، جن کے پاس اپنے ملکیتی رہائشی مکان نہ ہوتے ہیں۔ وہ سرکاری اراضی پر مٹی کی بنی ہوئی جھگیوں میں رہتے ہیں، ان کے پاس کوئی کاروبار یا ملازمت نہ ہوتی ہے۔ وہ تعلیم سے قطعی نابلد ہوتے ہیں۔ قسم قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس علاج معالجہ کرانے کا کبھی کوئی سوال پیدا نہ ہوتا ہے۔ وہ بیماری کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں اور بیماری کی حالت میں مر جاتے ہیں۔ علاج کی خاطر ڈاکٹر کے پاس جانا یا کوئی مناسب دوائی خریدنا ان کے بس میں نہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ بھوکے پیاسے اور بیماری کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں۔
آپ خود اندازہ لگائیں کہ کتنے لوگ کام کرتے ہیں، کتنے لوگ اپنی بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں۔ غربت کے مارے علاقے میں ڈاکٹر موجود نہ ہوتے ہیں، یہ میرا موقف پاکستان کے ان علاقوں سے وابستہ ہے، جہاں پر آمد و رفت کے ذرائع نہ ہوتے ہیں۔ لوگ جہالت کا شکار ہوتے ہیں،پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں، ایسے علاقے میں موجودہ ہیں، جہاں پر انسان اور حیوان گندے پانی کے تلابوں سے پانی پیتے ہیں۔خوفناک قسم کی بیماریاں ان ہی گندے پانی کے تالابوں سے شروع ہوتی ہیں اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں، اگر کسی کو میری ان باتوں پر کسی قسم کا شک ہے تو وہ لوگ میرے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر سکتے ہیں، وہ اپنی آنکھوں سے ان حالات سے مجبور و محکوم لوگوں کو دیکھ سکیں گے، اب ہم ایک آزاد قوم اور آزاد ملک ہیں۔ہمیں کیا کیا کام کرنا ہوں گے؟ ہمیں جنگی بنیادوں پر سطح غریب سے نیچے رہنے والے لوگوں کی معاشی زندگی میں بحالی کا کام شروع کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے مانگنے پر پابندی لگا دیں۔ ملکی سطح پر اس طرح کے غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے لوگوں کی گنتی کا کام شروع کرنا ہوگا۔ محکمہ اعدادوشمار کے لوگ ایسے لوگوں کی ایک مکمل جامع فہرست تیار کریں۔ایک ایسا قانون بنائیں، جس کے تحت ہر امیر شہری اپنی آمدن سے ایک حصہ غربت کو ختم کرنے کے لئے بطور ٹیکس حکومت کو ادا کرے گا۔ اس سکیم کا نام پاکستان اینٹی پاورٹی ٹیکس ہو گا۔ ان ٹیکس کی رقوم سے ہر رجسٹرڈ غریب شہری کو معقول رقم پر مبنی وظیفہ دیا جائے گا۔اس رقم کا حجم اتنا ہوگا، جس سے ہر غریب شہری پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے گا۔ پاکستان کے کونے کونے میں پاکستان رہائشی کالونی کے نام سے بستیاں آباد ہوں گی۔یہ مکانات پکے ہوں گے، ان مکانات کا رقبہ کم از کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ دس مرلے ہوگا۔ دو کمروں پر مشتمل مکانات میں باقاعدہ کچن اور ٹائلٹ ہوں گے۔پانی ،بجلی گیس، سکول اور ہسپتال ایسی بستیوں کا حصہ ہوں گے۔ دو لاکھ روپے کی لاگت سے اس طرح کے دو کمرے والے پختہ مکانات تعمیر ہوں گے۔ محکمہ ریلوے نے اس طرح کے مکانات بنا رکھے ہیں۔ یہ کام ایسا ہے، جس کو کیا جا سکتا ہے۔
شرط صرف ایک ہے کہ ہمارے حکمران ایماندار ہوں۔ حب الوطنی سے سرشار ہوں۔ غریب پرور ہوں، پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنے کا جوش و جذبہ رکھنے والے ہوں۔ غربت، جہالت، بے روزگاری اور بیماری کو صرف غلط کی طرح مٹانے کا خیال رکھنے والے ہوں۔ سنگاپور ، ملائیشیا اور کوریا وغیرہ نے اس طرح کے کام دنیا کو کر دکھائے ہیں۔ آپ جدید چین کو دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے غربت اور بے بسی کا گلہ دبا کر اسے ختم کر دیا۔جب پاکستان سے غربت ختم ہوگی تو اس سے شدت پسندی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ معاشی ناانصافی کی وجہ سے شدت پسندی کی وبا نے جنم لیا ہے۔ یہ میری کئی سال کی گہری سوچ کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو لامحدود وسائل دے رکھے ہیں، ان ذرائع کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا ہے، اب وقت آ گیا ہے، اس طرح کا کام شروع کیا جائے،ہمیں پاکستان میں شفاف ترین انتخابات کرانا ہوں گے۔ کسی بھی شہری کو ایسے انتخابات پر کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہوگا۔ انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ حالات خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اب ہمارے پاس وقت بہت ہی تھوڑا ہے۔ کام بہت زیادہ کرنے کو پڑا ہے۔ سب سے پہلے ساری قوم مل کر خانہ جنگی ختم کرے۔ پاکستان میں امن و امان بحال ہو،آئین اور قانون کی رٹ پاکستان کے کونے کونے میں نافذ العمل ہو۔ معاشی انقلاب لانے سے پہلے یہ سب کام ہمیں کرنا ہوں گے۔ملک اور قوم کو اس بات کا پورا پورا علم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کے کئی علاقوں میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ایک ایک کرکے ان تمام باغیوں کے مطالبات کو قوم کے سامنے لانا ہوگا، اگر باغی پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں تو اس طرح کے قوانین پاکستان میں موجود ہیں۔ باقی ماندہ اسلامی قوانین کے کام کو بھی مکمل کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے علماء کا یہ اولین کام ہے کہ وہ اسلام کے باقی ماندہ قوانین کی طرف نشاندہی کریں، تاکہ ہماری پارلیمنٹ ایسے قوانین پر عمل کرنے کا اہتمام کر سکے۔ اس طرح کے کاموں کو کرنے کے لئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے یا بغاوت کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اس وقت ہمارا ملک چاروں طرف سے خطرات کی زد میں آ چکا ہے۔ قانون کی عملداری کو بحال کرنا سب سے ضروری کام ہے۔
حکومت اپنا فرض جلد از جلد ادا کرے۔یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رکھی جائے۔ معاشرے کو سو فیصد یا مقصد تعلیم سے آراستہ کرنا ہی تمام مسائل کے حل کا واحد اور موثر ذریعہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران جہالت کے مسئلے کے خطرناک پہلو سے واقف نہ ہیں۔ آسمان کو چھونے والی عمارتیں تعمیر کرنے سے جہالت کا اندھیرا روشنی میں ہرگز نہ بدل جائے گا۔ اس جدید کام کو مکمل کرنے کے لئے پاکستان کے کونے کونے میں لاکھوں تعلیمی اداروں کو قائم کرنا پڑے گا۔ ان لاکھوں درس گاہوں میں جدید ترین تجربہ گاہیں بھی تعمیر کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں جاپان، جرمنی، کوریا،چین، ملائیشیا وغیرہ کی مثالوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔سب سے بڑھ کر ہمیں اس وقت پاکستانی قوم میں ذہنی انقلاب بپا کرنے کی ضرورت ہے۔ ساری قوم ترقی کی اس دوڑ میں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو جائے گی۔ ہر شہری کے حقوق کو ہر صورت پر اولیت دی جائے۔ اس کی تمام قسم کی ضروریات کو جنگی بنیادوں پر پورا کرنا ہی ہوگا۔روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور روزگار وغیرہ کو مہیا کرنا پڑے گا، اس کے بغیر اور کوئی چارہ نظر نہ آتا ہے، ساری قوم اور ملک کو بیدار ہونا پڑے گا۔ یہ کام ہمارا بیدار مغز میڈیا بڑی کامیابی سے کرے گا۔