کمیشن بنے نہ بنے ، عمران خان نے اپنا فیصلہ سنا دیا

کمیشن بنے نہ بنے ، عمران خان نے اپنا فیصلہ سنا دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ضابطہ کار تو ایک کی بجائے دو بن گئے ہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا کمیشن بھی بن پائے گا؟ کمیشن کی تشکیل کے لئے وزیراعظم نے جناب چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو جو خط لکھا تھا، اس کا ابھی جواب بھی نہیں آیا، جناب چیف جسٹس اس ضمن میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں، یہ تو اسی وقت پتہ چلے گا جب خط کا جواب آئے گا، لیکن عمران خان نے کمیشن کی تشکیل سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے خط پر چیف جسٹس نے کمیشن بنایا تو وہ ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کے خط پر اگر کمیشن نہیں بنے گا تو کیا ہما شما کے خط پر بنے گا؟ دوسری بات عمران خان نے یہ کہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کا ایک نقطہ بھی تبدیل کرنے نہیں دیں گے، جبکہ سید خورشید شاہ کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ٹی او آرز کا ایک تیسرا ایسا مسودہ بنایا جاسکتا ہے جو نہ حکومت کا ہو اور نہ اپوزیشن کا، بلکہ یہ دونوں کی رائے سے بنایا جاسکتا ہے، سید خورشید شاہ کی جماعت اس متحدہ حزب اختلاف کی ایک سٹیک ہولڈر ہے جس نے اپوزیشن کا ٹی او آر تیار کیا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس میں اگر ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا تو شاہ صاحب کس امید پر کہہ رہے ہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف اپنے اپنے ضابطہ اخلاق سے ہٹ کر کوئی تیسرا مسودہ تیار کرسکتے ہیں۔ مذاکرات کی بات گزشتہ روز جہانگیر ترین نے بھی کی تھی، انہوں نے اپوزیشن کے مسودے میں کسی تبدیلی وغیرہ کی بات تو نہیں کی، لیکن صاف ظاہر ہے جب مذاکرات ہوتے ہیں تو ان کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ فریقین اپنے اپنے موقف پر گل محمد کی طرح بغیر کسی جنبش کے اڑے رہیں گے کہ زمین ادھر کی ادھر ہو جائے گل محمد صاحب نہیں ہلیں گے۔ مذاکرات کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ فریقین اپنے موقف سے ادھر ادھر ہوں گے تو بات آگے بڑھے گی۔ اب اگر عمران خان اپوزیشن کے ضابطہ کار میں کسی ایک نقطے کی تبدیلی نہیں چاہتے تو پھر یہ اعلان ہو جانا چاہئے کہ مذاکرات نہیں ہوں گے، اس کے بعد جو بھی ہوتا رہے۔ اب جہاں تک جناب چیف جسٹس کا تعلق ہے یہ عین ممکن ہے کہ وہ برادر ججوں سے مشاورت کا عمل اگلے چند روز میں مکمل کرکے کوئی فیصلہ کرلیں، لیکن عمران خان کے بیان کے بعد نہیں لگتا کہ کوئی ایسا کمیشن بننے جا رہا ہے جو اپنی تخلیق سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا ہے۔
اس وقت تک جو ضابطہ کار جناب چیف جسٹس کے پاس ہے وہ تو وہی ہے جو وزیراعظم نے اپنے خط کے ساتھ ارسال کیا تھا۔ وہ اگر اس پر کمیشن تشکیل دے دیتے ہیں تو اسے تو عمران خان پہلے ہی نہ ماننے کا اعلان کرچکے ہیں، جو ضابطہ کار اپوزیشن نے بنایا ہے، وہ تو وزیراعظم کے پاس ہے اس کی کوئی حیثیت تو تب بنے گی جب وہ وزیراعظم کی جانب سے جناب چیف جسٹس کو بھیجا جائیگا۔ وزیراعظم نے یہ ضابطہ کار قانونی ماہرین کو ارسال کر دیا ہے اور اس پر وہ کوئی رائے اسی وقت قائم کریں گے جب انہیں قانونی ماہرین کا مشورہ مل جائیگا۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ضابطہ کار کے معاملے پر بات تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی اور اگر اس پر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات نہیں ہوتے تو پھر بات آگے نہیں بڑھے گی، تاہم باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ بات چیت کے لئے میز تو بچھ جائیگی لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا مذاکرات کے بعد کوئی نیا ضابطہ کار بنے گا؟ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس نے تو ایک قدم آگے بڑھا کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں ایک چھ رکنی کمیٹی بنا دی ہے جس نے فوری طور پر اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ امکان ہے کہ یہ کمیٹی دو روز تک قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔ اس کمیٹی کا مقصد ’’مشترکہ ضابطہ کار‘‘ کی تشکیل بتایا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے ضابطہ کار میں اپوزیشن کے ضابطہ کار کے بعض حصے شامل کرے گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا پورے کا پورا ضابطہ کار قبول کرلیا جائے گا۔ مذاکرات تو ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول پر ہی ہوں گے۔ ایسی صورت میں یہ عین ممکن بلکہ لازمی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پہلے کی طرح اجلاس منعقد کرکے اس میں حکومتی تجاویز پر غور کریں۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف کو بھی اپنے موقف کو تھوڑا بہت تبدیل کرنا ہوگا، عمران خان نے جو یہ کہا ہے کہ اس میں ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوگا، کم از کم اس موقف سے تو ضرور ہٹنا ہوگا۔ پھر سوال پیدا ہوگا کہ اگر عمران خان اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے تو کیا اپوزیشن حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کرے گی یا نہیں؟ ایسے میں یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو عمران خان کی بات مان کر مذاکرات سے انکار کردیا جائے یا پھر ’’مائنس ون‘‘ مذاکرات کرلئے جائیں۔ پھر یوں ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں مذاکرات کرلیں گی اور عمران خان اپنی پوزیشن پر ڈٹ کر اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کر دیں گے۔
عمران خان کا فیصلہ

مزید :

تجزیہ -