لندن کے پہلے پاکستانی میئر صادق خان کے بارے میں وہ باتیں جو آپ کو کسی نے نہیں بتائیں
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان مخالف امیدوار زیک گولڈ سمتھ کو واضح فرق کے ساتھ ہرا کر لندن کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہو گئے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ صادق خان پاکستانی نژاد ہیں جن کے والد پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے اور وہاں بس چلایا کرتے تھے، مگر صادق خان کی زندگی کے کئی ایسے گوشے ہیں جن سے تاحال بہت سے لوگ واقف نہیں ہیں۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اپنی ایک رپورٹ میں ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صادق خان اور ان کا خاندان باقاعدگی سے رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور نماز پڑھتا۔ اس سے قبل وہ برطانیہ میں وزیر بھی رہ چکے ہیں، اور وہ برطانیہ کے پہلے وزیر ہیں جنہوں نے حج بیت اللہ کا فریضہ بھی ادا کر رکھا ہے۔ان کے والد ٹوٹنگ (Tooting)اور بیلہم (Balham) کے علاقوں میں مقیم رہے تھے۔ صادق خان کو گھر پر بھی اسلامی تعلیمات کا درس دیا جاتا رہا مگر بعد ازاں وہ ان علاقوں کی مساجد میں بھی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے رہے۔اس حوالے سے صادق خان کا کہنا ہے کہ ”ہمیں بچپن ہی سے اسلام کے پانچ ستونوں ایمان، نماز،روزہ، حج اور زکوٰة کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور انہیں کی ادائیگی سکھائی جاتی ہے۔“
صادق خان ماضی میں انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے خلاف کھل کر بولتے رہے ہیں اور اپنی میئرشپ کی انتخابی مہم میں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کرتے رہے ہیں جس پر انہیں اور ان کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہو چکی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی اہلیہ سعدیہ اور بیٹیوں انیسہ اور عمارہ کو سکیورٹی دینے کی درخواست بھی دی تھی۔ ان کی بیٹیوں کی عمریں 14اور 16سال ہیں۔درخواست کے بعد ان کے حلقہ¿ انتخاب میں سکیورٹی آفیسرز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے جو ان کے گھر پر کسی بھی واقعے کی اطلاع ملنے فوراً وہاں پہنچیں گے۔صادق خان اور ان کی اہلیہ سعدیہ کی شادی 1994ءمیں ہوئی تھی۔
ایک طرف صادق خان کو دہشت گردی کے خلاف بولنے پر دھمکیاں مل رہی ہیں تو دوسری طرف ان پر شدت پسندوں کا حامی ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے 9مرتبہ سلیمان غنی نامی عالم دین کے ساتھ تقریبات میں شرکت کی ہے جو شدت پسندی کا پرچار کرتے ہیں اور شام و عراق میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم داعش کے حامی ہیں۔ اسی طرح صادق خان کو ایک طرف مذہبی شخص قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ان پر حد سے زیادہ لبرل اور آزاد خیال ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے برطانیہ میں ہم جنس پرستی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے ایک بار ایک ٹی وی مذاکرے میں اعتدال پسند مسلمان گروپوں کو ”انکل ٹام“ کا لقب دیا تھا جو عموماً سیاہ فام باشندوں کی غلامانہ طینت کو ظاہر کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، اس پر بعد ازاں انہیں معافی بھی مانگنی پڑی تھی۔