پاناما کیس میں وزیراعظم کی جانب سے کوئی خط عدالت میں پیش نہیں کیا گیا

پاناما کیس میں وزیراعظم کی جانب سے کوئی خط عدالت میں پیش نہیں کیا گیا
پاناما کیس میں وزیراعظم کی جانب سے کوئی خط عدالت میں پیش نہیں کیا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس اعجاز افضل نے، جو پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے قائم ہونے والے خصوصی بنچ کے سربراہ ہیں، کہا ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد ’’ایک سیاسی لیڈر‘‘ نے کہا کہ پانچوں ججوں نے وزیراعظم کو جھوٹا قرار دیا، حالانکہ وزیراعظم کو نہ تو میں نے جھوٹا قرار دیا اور نہ ہی اس بنچ میں موجود باقی دو ججوں نے ایسا کہا اس ’’سیاسی رہنما‘‘ نے جھوٹ بولا اور لوگوں کو دھوکہ دیا، کچھ لوگ سمارٹ بننے کی کوشش کر رے ہیں، سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ پاناما کیس ابھی زیر التوا ہے، سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کسی رہنما کا نام نہیں لیا تھا، لیکن عمران خان نے نوشہرہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خود ہی اپنے حاضرین جلسہ کے سامنے انکشاف کیا کہ یہ ریمارکس ان کے بارے میں دئیے گئے، پھر انہوں نے خود ہی وضاحت کر دی۔ میرا بیان تھا دو ججز نے نواز شریف کو جھوٹا کہا، پانچوں نے قطری خط تسلیم نہیں کیا تو میں سمجھتا ہوں قطری خط جھوٹ تھا۔ ایک جج صاحب نے میرا نام لیا اور کہا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، عمران خان نے یہ بھی کہا ’’جو نواز شریف کا ڈیفنس تھا قطری خط، پانچوں ججوں میں سے کسی نے بھی اس کو نہیں مانا، میں اس پر یہ سمجھتا ہوں کہ جب ججوں نے قطری خط نہیں مانا اس کا مین ڈیفنس کہ پیسہ یہاں سے باہر کیسے گیا، نواز شریف کا ڈیفنس ختم ہوگیا، یعنی قطری خط جھوٹا تھا۔
اتفاق کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس اعجاز افضل نے گزشتہ روز ہی (جمعہ) دوران سماعت ریمارکس دئے تھے کہ ان سمیت تین ججوں میں سے کسی نے بھی وزیراعظم کو جھوٹا نہیں کہا، لیکن ایک لیڈر نے عوام سے جھوٹ بولا، عمران خان نے اسی دن اپنے انداز میں وضاحت بھی کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ انہوں نے ججوں کی کس بات سے اندازہ لگایا کہ انہوں نے وزیراعظم کو جھوٹا کہا ہے، یہ قطری شہزادے کا خط ہے جو عمران خان کے خیال میں نواز شریف کا مین ڈیفنس تھا، اب اس خط کے استرداد کے بعد عمران خان نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ ججوں نے نواز شریف کو جھوٹا کہا ہے، عمران خان نے 30 اپریل کو کیا کہا تھا، ان کی آواز میں تمام چینلوں میں محفوظ ہے اور نوشہرہ کے جلسے میں انہوں نے جس انداز کی وضاحت کی، وہ بھی ان کی اپنی آواز میں محفوظ ہے، ہم اس بحث میں نہیں الجھتے کہ انہوں نے اگر یہ نہیں کہا تھا کہ تمام ججوں نے وزیراعظم کو جھوٹا کہا تو جسٹس اعجاز افضل کو ان کے حوالے سے خصوصی طور پر بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی اور انہیں کیوں کہنا پڑا ’’وزیراعظم کو جھوٹا نہیں کہا، ایک سیاست دان نے لوگوں کو دھوکا دیا، آئندہ کٹہرے میں لائیں گے۔‘‘ فی الحال تو یہ معاملہ عدالت میں زیر بحث نہیں ہے لیکن پانامہ کیس چونکہ چل رہا ہے، عین ممکن ہے مقدمے کے دوسرے فریقوں میں سے کوئی ایک اس معاملے کو بھی عدالت میں اٹھا دیں اور پھر فاضل عدالت کو عمران خان کی ویڈیو سی ڈی طلب کرکے کوئی فیصلہ کرنا پڑے۔
اس وقت ہمارا موضوع قدرے مختلف ہے اور ہمارے زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ کیا قطری شہزادے کا خط بقول عمران خان ’’نواز شریف کا مین ڈیفنس‘‘ ہے۔ یہ بات نہ صرف عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں بلکہ اور بھی بہت سے سیاستدان جو اتفاق سے اعلیٰ قانون دان بھی ہیں یہی موقف اپنا رہے ہیں کہ قطری شہزادے کا خط مسترد ہوگیا تو نواز شریف کا مین ڈیفنس ختم ہوگیا، اگر ایسا ہی تھا تو کیا فاضل بنچ بجائے جے آئی ٹی بنانے کے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا تھا جو ان لوگوں کو خوش آتا جو اب جلسوں اور میڈیا ٹاکس میں کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کا ’’مین ڈیفنس‘‘ مسترد ہوچکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قطری شہزادے کا خط نواز شریف کی جانب سے ان کے کسی وکیل نے کسی پیشی کے وقت وزیراعظم کی جانب سے بطور دفاع پیش کیا تھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ذرا درخواست دہندگان اور مدعا علیہان کے ناموں کو اپنے ذہنوں میں تازہ کرلیں، پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پانامہ کیس میں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد الگ الگ درخواست دہندگان تھے۔ عمران خان نے مختلف قسم کی سات استدعائیں اپنی درخواست میں کی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دے کر وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا جائے، باقی دونوں درخواستوں میں بھی یہ استدعا مشترکہ تھی جو فیصلے میں تسلیم نہیں کی گئی اور سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے (2+3) میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا (جو اب تشکیل پاچکی ہے) یہ تو واضح ہے کہ درخواست دہندگان کی کوئی استدعا نہیں مانی گئی اور جو حکم دیا گیا اس کی استدعا کسی درخواست دہندہ نے نہیں کی تھی، ان تمام درخواستوں میں سرکاری اداروں کے علاوہ مدعا علیہان چار تھے۔ (1) وزیراعظم نواز شریف (2) حسن نواز (3) حسین نواز (4) مریم نواز
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے کسی وکیل نے قطری خط کا کوئی حوالہ کسی جگہ بھی نہیں دیا، ان کی جانب سے پہلے سلمان بٹ اور بعد میں مخدوم علی خان بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔ جہاں تک ان سطور کے راقم کو یاد ہے ان دونوں فاضل وکلاء میں سے کسی ایک نے بھی کسی مرحلے پر کوئی خط پیش نہیں کیا نہ ان دلائل میں اس کا کوئی ذکر کیا۔ حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے ابتدا میں وکالت اکرم شیخ سینئر ایڈووکیٹ کر رہے تھے اور انہوں نے ہی قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کیا تھا۔ ابھی چند روز پہلے اکرم شیخ نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ قطری شہزادے کا خط انہیں ان کے موکلوں (حسن اور حسین) نے لفافے میں مہر بند حالت میں دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ یہ خط عدالت میں اسی طرح پیش کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے بند لفافہ عدالت میں پیش کر دیا، اکرم شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ خط کے مندرجات کیا ہیں۔ جب جج صاحبان نے خط کھول کر عدالت میں انکشاف کیا تو انہیں پتہ چلا کہ یہ قطری شہزادے کا خط تھا ، اکرم شیخ کے دستبردار ہونے کے بعد حسن اور حسین کی جانب سے وکالت کی ذمہ داری سلمان اکرم راجہ نے سنبھالی اور اپنے موکلوں کے حق میں دلائل دئیے۔ مریم نواز کی جانب سے بھی وکالت اکرم شیخ ہی کرتے تھے، اب جس خط کو ’’نواز شریف کا مین ڈیفنس‘‘ کہا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر یہ خط وزیراعظم نے پیش ہی نہیں کیا تو یہ ان کا ’’مین ڈیفنس‘‘ کس قاعدے اور قانون کے تحت ہوگیا۔ اس خط کی تمام تر ذمے داری اور اس کے عواقب و نتائج حسن، حسین اور مریم نواز کے کاندھوں پر ہیں۔ جب تک پانامہ کیس کی سماعت ہوتی رہی عمران خان ہر تاریخ پیشی پر باقاعدہ حاضر ہوتے رہے۔ غالباً انہوں نے کسی ایک تاریخ پر بھی غیر حاضری نہیں کی، بلکہ ایک بار انہوں نے خود کہا تھا کہ وہ اتنی باقاعدگی سے کبھی سکول نہیں گئے جتنی باقاعدگی سے عدالت میں حاضری دیتے رہے۔ اس لئے اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ قطری خط مسترد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف جھوٹا ہے تو اسے ان کی سادگی پر محمول کیا جائے یا پرکاری پر، یا پھر انہوں نے زیب داستاں کے لئے یہ بات تکیہ کلام کے طور پر استعمال کر دی، اس لئے اب اپنا موقف جو عمران خان جلسوں اور میڈیا ٹاکس میں بیان کر رہے ہیں، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے۔
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز بیاں ہے

مزید :

تجزیہ -